نوآبادیات کے چند ہتھنکڈےتحریر : پالو فرائرے
ترتیب : بلوچ خان دِھانیطلبہ اور تعلیم :ظالم کیلئے اشد ضروری ہے کہ کسانوں کو شہری مزدوروں اور ان دونوں طبقوں کو طلبا ء سے الگ تھلگ کریں۔ظالم یہ جانتے ہیں کے طلبا ء کے اندر پائے جانے والے باغی رویہ(اگر چہ سماجی طور پر طلباء کسی طبقہ کی تشکیل نہیں کرتے) اگر عوام سے حقیقی رشتہ قائم ہوجائے تو یہ بات ان کیلئے بے پناہ خطرات کا باعث بن سکتی ہے ۔اسی وجہ سے حکمران طبقات مزدوروں،کسانوں اور دیگر پسے ہوئے طبقات میں زور و شور سے اس بات کا پرچار کاتے ہیں۔جس طرح کسانوں اور مزدوروں کو قوم کی ترقی کیلئے محنت کرتے رہنا چاہیے اسی طرح طلباء کا کام محض پڑھنا ہے۔ صرف ان کی مسلط کردہ تعلیم جو بینکگ نظریہ تعلیم ہے۔۔بینکنگ نظریہ تعلیم سے مراد جس میں طلباء کو جو عمل کرنے کی اجازت ہے وہ یہ ہے کہ وہ استاد کی بیان کی سنیں اور اپنے خالی دماغ کو پر کریں اس نظام میں بحث مباحثہ اور تنقید کی کوئی گنجائش نہیں۔ صرف جھوٹ کا سہارا لے کر طلباء کے دماغ کو پر کرتے ہیں۔جو صرف اور صرف ظالم اور نوآبادی نظام کے مفاد ات کی حفاظت کرتا ہے ۔ اس نظام میں اچھااستاد وہی جو طلباء کی خالی دماغوں کو پر کرے اور اچھا طلباء وہی ہے جو اس جھوٹی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ اپنی دماغ میں جگہ دے اور اس پر عمل کرے۔ یہ نظام طلباء کو بانجھ بناتا ہے با الفاظ دیگر طلباء صرف اور صرف ایک مشین بن جاتا ہے اسے جب جہاں چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔مثلاََ ۱۔استاد سکھاتا ہے اور طلبہ سیکھتا ہے۔2۔استاد ہر بات کو جانتا ہے اور طلبہ کچھ نہیں جانتا۔۳۔ استاد سوچتا ہے اور طلبہ کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔۴۔استاد بولتا ہے اور طلبا ء عاجزی سے سنتا ہے۔۵۔استاد چنتا ہے اپنا چناؤ ٹھونستا ہے اور طلباء اس چناؤ کے مطابق عمل کرتے ہیں۔۶۔استاد جو پروگرام کرتا ہے طلباء(جن سے مشورہ نہیں لیا گیا ہے) اسے قبول کرتے ہیں۔ ظالم ، اور قبضہ گیر ،طلباء میں تنقیدی شعور کے بیدار ہونے کے خطرے کو ٹالنے کیلئے یہی بینکنگ نظریہ تعلیم کو استعمال کرتے ہیں۔۔مثال کے طور پر تعلیم بالغان میں یہی نظریہ کبھی بھی طلباء کو یہ تجویز نہ کریگا کہ وہ حقیقت کا تنقیدی جائزہ لیں اس کے بجائے یہ نظریہ تعلیم ایسے اہم مسائل سے سروکار رکھتا ہے کہ روجر نے بکری کو گھاس دی۔لیکن انسان دوست انقلابی تعلیم دان اس امکان کے حقیقت میں بدلنے کا انتظار نہیں کرسکتا اسلئے ضروری ہے کہ شروع ہی سے اس کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ طلباء کے ساتھ اس کے تعلق کی بنیاد،باہمی تعاون پر ہو اور وہ طلباء کے ساتھ ملکر حقیقت کے بے نقاب کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے حقیقی تعلیم ظالموں۔قبضہ گیروں کے مفاد کو فائدہ نہیں پہنچاتی۔ بلکہ ان کے بربادی کا سبب بن سکتی ہے ۔کوئی بھی جبر و تشدد پرمبنی نظام مظلوموں کو اس بات کا اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ یہ سوال کرنا شروع کردیں ۔ کیوں؟آزادی کیلئے اتحاد : آزاد عمل صرف وہی ہوسکتا ہے جس کے کے زریعے کوئی شخص اپنی دنیا اور اپنے آپکو تبدیل کرتا ہے۔ صرف زندگی کو داؤ پر لگانے ہی سے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے وہ فرد جس نے اپنی زندگی کو داؤ پر نہیں لگایا بلاشبہ ایک شخص کے طور پر اس کی شناخت تو کی جاسکتی ہے۔لیکن اس نے ایک آزاد خودآ گاہ ذات کی طرح اس شناخت کی سچائی کو نہیں۔ آزادی کی جدجہد کے کسی بھی مرحلے میں مظلوموں کے ساتھ تنقیدی اور آزادی بخش مکالمے کو ہمیشہ جاری رکھنا چاہیے۔مظلوموں کی آزادی انسانوں کی آزادی ہے اشیاء کی آزادی نہیں۔جب تک کوئی شخص اپنی آزادی کی جدجہد کی حصول میں خود اپنی کوششوں کو شامل نہیں کرتا اس وقت تک وہ کسی دوسرے کی مدد سے بھی آزاد نہیں ہوسکتا۔آزادی جو کہ ایک خالص انسانی جوہر ہے اسلئے اسے نیم انسانی زرائع سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ظالم مظلوموں کو غلام بنانے کیلئے انہیں تقسیم کرکے ان پر اپنا ظلم و جبر کرتے ہیں۔ اسلئے لیڈر پر لازم ہے کہ نہ صرف اپنے آپکو مظلوموں کے درمیان بلکہ مظلوموں اور رہنماؤں کے درمیان بھی اتحاد و تعاون کو فروغ دینے کی انتھک کوششوں کیلئے خود کو وقف کریں تاکہ آزادی کا حصول ممکن ہوسکے۔۔لیکن حکمران انقلابی رہنماؤں کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ منظم ہوکر اپنے صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔مظلوموں کے درمیان اتحاد سے پہلے انہیں اپنے مظلوم ہونے کا شعور ہونا لازمی ہے۔ مظلوموں کے درمیان اتحاد کے حصول کیلئے بروکار لانے کے والے طریقہ کار کا انحصار سماجی ڈھانچہ میں مظلوموں کے تاریخی اور وجودی تجربے پر ہوگا۔اس ناقابل گزیر اتحاد کیلئے لازم ہے انقلابی عمل اپنے آغاز سے ہی ’’کلچرل عمل‘‘ کا بھی احاطہ کرے۔ صرف عمل کی وہ صورت جس میں میکانکی عمل پسند،بے مقصد تقریر بازی یا غیر حقیقی لفاظی سے گریز کیا جائے،غاصب کی پھوٹ ڈالنے کے عمل کی مخالف کرسکتی ہے اور مظلوموں کو اتحاد کی جانب لے سکتی ہے۔فرانز فینن کے بقول نوآبادی نظام کا شکار شخص اپنا غصہ کا اظہار اپنے ہی لوگوں کے خلاف کرتا ہے۔ قبضہ گیری پولیس ،فوج جب ان پر تشدد اور انہیں بے عزت کرتے ہیں تو وہ کچھ نہیں کرسکتے لیکن اپنی کسی دوسرے مقامی باشندے کی کسی بھی معمولی بات پر جارحانہ کاروائی کرتے ہیں۔(بلوچی میں : ہر ءَ دست نراسیت ہر ءِ کرّگ ءَ دست جنت )کیونکہ ان کے نزدیک اپنی شخصی آزادی کے دفاع کی آخری جگہ اپنی ہی بھائی کے مد مقابل ہے۔جس طرح جبر کرنے کیلئے ظالم جبری عمل کے ایک نظریہ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اسے طرح مظلوم بھی اپنی آزادی کیلئے ایک نظریہ کی ضرورت رکھتے ہیں۔ظالم عوام کے مخالف کھڑا ہونے کی وجہ سے اپنے عمل کے نظریے کی وضاحت بھی عوام کے بغیر کرتا ہے دوسری طرف عوام بھی اپنی آزادی کے عمل کا نظریہ اس وقت تک تشکیل نہیں کرسکتے جب تک وہ پسے ہوئے ہیں،ظلم کا شکار ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب تک وہ خود اپنے اندر ظالم کے وجود کے گھے کئے ہوئے ہیں۔البتہ عوام کی انقلابی رہنماؤں کے ساتھ مڈبھیڑ میں،ان کی مشترکہ رفاقت میں اور praxis میں ہی اس نظریہ کی تشکیل ممکن ہے۔۔آزادی ،انقلابی لیڈر اور عوام :آزادی کی جدجہد کو مربوط و منظم شکل ادا کرنا حتیٰ کہ بعض اوقات جدجہد کی سمت کا تعین کرنا بھی لیڈرز کی زمہ داری میں شامل ہے۔ لیکن اس ذمہ داری کے نام پر مظلوموں کو غور و فکر سے محروم کرنے اور اسطرح انہیں مستند عمل یاpraxis(praxis: bring an idea into an action)سے محروم کرنے والے لیڈر خود اپنی مستند عمل(praxis) کی نفی کرتی ہے۔اپنے لفظ کو دوسروں کے ذہن و زبان میں ٹھونس کر نہ صرف وہ اس لفظ کو جٹھلاتے ہیں بلکہ اپنے مقاصد، طریقہ کار میں تضاد بھی پیدا کرتے ہیں۔ آزادی کے آدرش سے سچی وابستگی رکھنے والے لیڈر کا عمل غور و فکر بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔لیڈر انقلابی نظریہ اس تبدیلی کے عمل میں عوام کو مرکزی یا بنیادی کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سے محروم رکھنے کی غلطی نہیں کرسکتا اور نہ ہی لیڈر کو ایسا کردار ادا کرنے کی آزادی دے سکتا ہے۔ انقلاب برپا کرنے کیلئے انقلابی لیڈر بلاشک و شبہ عوام کی حمایت درکار ہوتی ہے۔انقلابی رہنماء کی مظلوموں کے ساتھ وابستگی در اصل بیک وقت آزادی سے وابستگی ہے۔اسلئے اس وابستگی کی بنیاد پر لیڈر عوام کو زیر نہیں کرسکتے۔اس ل کے برعکس ان پر لازم ہے کہ وہ آزادی کی حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ عوام کی حمایت حاصل کریں کیونکہ زیر کرنے اور فتح کرنے سے حاصل شدہ حمایت۔۔حمایت نہیں رہتی۔۔انقلابی praxis کسی ایسی لغو یا بے معنی تقسیم کو قبول نہیں کرتا جس میں عوام کے مستند عمل کا مطلب محض لیڈر کی احکامات کی اندھی پیروی ہو ۔ایسے عمل لیڈر اور عوام کے درمیان حکمران طبقات کے انداز کار کی عکاسی کرتا ہے اس عمل میں لیڈر کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ مظلوموں کو اپنی ملکیت کے طور دیکھیں۔لیڈر اور عوام کا دو مختلف اطراف میں کھڑے ہونا دراصل جبر کے رشتوں اور تعلقات کا نمونہ ہے۔ انقلابی عمل میں عوام کو منظم کرنے انقلابی قوت کو مضبوط بنانے یا کسی متحدہ محاذ کے قیام بہانے عوام کے ساتھ مکالمے سے گریز دراصل آزادی سے خوف کا مظہر اور انقلابی اتحاد سے انکار کا عمل ہے۔ انقلاب نہ تو لیڈر عوام کیلئے برپا کرتے ہیں اور نہ ہی عوام لیڈر کیلئے۔ بلکہ یہ دونوں ایک ناقابل متزلزل اتحاد میں منسلک ہوکر اپنے مشترکہ عمل کے زریعے ہی انقلاب کو ممکن بناتے ہیں اور ایسا اتحاد اس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے جب لیڈر انکسار ۔محبت آمیز رویّے اور جرات مندی سے عوام کا سامنا کرتے ہوئے اس کا ثبوت فراہم کریں۔انقلابی لیڈر عوام کے بغیر عوام کیلئے نہیں بلکہ صرف عوام کے ساتھ سوچتے ہیں۔انقلابی عمل میں ابھرنے والے سچے لیڈروں کے لئے مستند ہونے کا صرف ایک ہی راستہ ہے ان کیلئے ’’مرنا‘‘ لازمی ہے تاکہ وہ مظلوموں کے زریعے اور ان کے ساتھ دوبارہ جنم لے سکیں۔ایک انقلابی نظریہ کے بغیر کوئی انقلابی تحریک جنم نہیں لے سکتی۔ بعض دفعہ عوام آزادی کی نہیں بلکہ تنخواہ میں اضافے کی بات کرتے ہیں اس میں لیڈر کو کردار ادا کرنا چاہیے ان میں (عوام)شعور ڈالنا چاہئے کہ ان کا مسئلہ تنخواہ میں اضافے کا نہیں بلکہ غلامی ہے ۔اور اس کا حل آزادی ہے ۔مثلاََ اگر مزدور کسی طریقہ کسی طریقہ سے اپنی محنت کے مالک نہیں بن پاتے تو تمام شعبہ جاتی اصلاحات غیر موثر ہوں گی(یہ سچ ہے) کہ خواہ مزدور کسی معاشی نظام میں زیادہ تنخواہ ہی کیوں نہ وصول کرلیں اس کے باوجود ان اضافوں سے مطمئین نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنی محنت کے مالک بننا چاہتے ہیں نہ کہ بیچنے کیلئے۔۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ظلم و ستم کے مراحل کے دوران کسی دوسرے پر ظلم کرتا ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ انقلابی عمل میں کوئی کسی دوسرے کو آزاد کراتا ہے اور نہ ہی کوئی اپنے آپکو آزاد کراتا ہے بلکہ انسان باہمی رفاقت میں ایک دوسرے کو آزاد کراتے ہیں۔ انقلابی لیڈر نہ تو جھوٹے فیاض ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ساز باز و عیاری کو استعمال کرنا انہیں زیب دیتا ہے۔ظالم سرگرمیاں انسان دوست نہیں ہوسکتے جبکہ انقلابی کی سرگرمیاں کیلئے انسان دوست ہونا لازمی ہے۔ فیڈل کاسٹرو نے چی گویرا کی کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کیوبا کے عوام سے کہا:’’ جبکہ شک و شبہات کی فضا سے ہم شاید کسی قدر فائدہ اٹھا سکیں لیکن جھوٹ،سچ سے خوف، فریب نظر،اور جھوٹ سے سمجھوتہ بازی کبھی بھی انقلابیوں کے ہتھیار نہیں رہے۔۔غور و فکر:کائنات کو تبدیل کرنے کی خاطر کی جانیوالی عمل و غور فکر پر مشتمل سرگرمیاں مستند عمل یا (praxis) کہلاتی ہے۔لفظ دو اجزاء کا ترکیب ہے غور وفکر اور عمل یہ دونوں ایک دوسرے پر ایسے بھر پور انقلابی طریقہ سے اثر انداز ہوتے ہیں کہ ان میں سے ایک کو قربان کردیا جائے تو دوسرا لازماََ متاثر ہوگا۔لفظ جس میں عمل نہ ہو۔ زبانی،لفاظی،گپ بازی اور بکواس میں تبدیل ہوگا عمل کے بغیر کسی قسم کی کوئی تبدیلی نا ممکن ہے؟؟ دوسری جانب غور و فکر کے بغیر عمل پر زور سے لٖفظ محض اندھے عمل میں تبدیل ہوجاتا ہے ایسا اندھا عمل جو praxis کا انکار کرتا ہے اس طرح یہ ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں۔ظالم اور مظلومتشدد ظالم اور مظلوم کے درمیان پیدا ہونے والا رشتے کانقطہ آغازہے۔ انسانی تاریخ میں مظلوم عوام نے کبھی بھی تشدد کا آغاز نہیں کیا کیونکہ وہ تو خود تشدد کی پیداوار اور تخلیق ہیں کس طرح تشدد کا آغاز کرتے ہیں۔وہ جو دوسروں کو بطور انسان تسلیم نہیں کرتے ظلم و استحصال کرتے ہیں یہ وہی ہیں جو تشدد کا آغاز کرتے ہیں۔ ظالم کے خلاف لڑنے والے مظلوم عوام کوکبھی مظلوم عوام تصور نہیں کرتے بلکہ انہیں ایرے گیرے،بے شعور، جاہل،بدمعاش،تخریب اور تشدد پسند کہنا پسند کرتے ہیں۔ اگر چہ سرکاری اصلاح میں tiradents کو ایک سازشی اور اس کی قیادت میں لڑی جانے والی تحریک آزادی کو مستقل طور پر ایک سازش کا نام دیا جاتا ہے اس کے باوجود عوام اور تاریخ کی نظروں میں قومی ہیرو tiradents ہے نہ کہ وہ جس کے حکم پر tiradents کو قزاق کا نام دیکر پھانسی پر لٹکایا گیا اور اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمسایہ دیہاتوں کی گلیوں میں پھنکوایا گیا۔ تاریخ نے ظالمو ں کی جانب سے اسے دیئے جانے والے لقب کو پھاڑ کر تباہ کردیا اور اس کے جزبہ حریت کا اسی معنی و مفہوم میں اقرار کیا گیا جس کا وہ مستحق تھا۔tiradents جیسے انسان ہی دراصل وہ ہیرو ہیں جنہوں نے اپنے وقتوں میں آزادی اور اتحاد کی تلاش میں سرگرم سفر ہوکر شہادت پائی نہ کہ وہ جنہوں نے اپنی طاقت کو عوام میں انتشار پیدا کرنے اور حکومت کرنے کیلئے استعمال کیا۔۔ظالم اور مظلوم ایک دوسرے کی ضد ہیں اسلئے جو بات ایک طبقے کی مفاد میں جاتی ہے دوسرے کے خلاف ہوجاتی ہے۔ غلبہ حاصل کرنیوالے ظالم اپنے آپکو انسان کے نجات کا دہندہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جنہیں انہوں نے خود پستی میں دھکیل دیا ہے تاہم انکی کردار کی اصل نیت کو نہیں چھپا سکتی۔امن کوئی ایسی شے نہیں ہے جسے خریدا جاسکے ۔امن تو اتحاد،یگانگت اور محبت بھرے اعمال میں محسوس کیا جانے والا ایک ایسا جزبہ ہے جسے تشدد کے ماحول میں حاصل نہیں کیا جاسکتا۔۔پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو (divide and rule)ظالمانہ نظریہ کا دوسرا بنیادی جزو پھوٹ دالو اور حکومت کرو کی سیاست ہے۔یہ اس قدر پرانا ہے جس قدر ظلم بجائے خود۔چونکہ ظالم اقلیت اور مظلوم اکثریت میں ہوتے ہیں۔اسلئے ظالم انہیں تقسیم کرنے(تا کہ ان میں اتحاد نہ ہو)اور ان پر حکومت کرنے کی پالیسی اپناتی ہے۔ظالم کسی بھی طریقہ سے (بشمول تشدد) ہر اس عمل کو حتیٰ کہ اس کی ابتدائی یا انتہائی شکلوں کو روکنے کی کوشش کرتا ہے جو مظلوموں کے درمیان اتحاد کی ضرورت کو بیدارکرے۔ یہ بات ظالموں کے مفادات کو تقویت پہنچاتی ہے۔ کہ مظلوموں کو کمزور رکھا جائے ان کے درمیان جھگڑے کی خلیج کو وسیع و گہرا بنایا جائے ثقافتی تشدد کی مدد سے وہ عوام کو ان کی مدد کا تاثر دیتے ہوئے انہیں سازشی طریقوں سے قابو میں لا نے کی کوشش کرتے ہیں لوگ جس قدر شدت سے بیگانیت کا شکار ہوجاتے ہیں ان میں پھوٹ ڈالنا ا نہیں منقسم کرنااتنا ہی آسان ہوتا ہے۔ نام نہاد لیڈر شپ بھی بیگانیت پیدا کرتے ہیں اور ان میں بھی divide and rule کی والا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔کسی علاقے میں ترقی دینے کا مقصد کا حصول اس علاقہ کے لیڈروں کو ٹریننگ کے زریعہ ممکن بنایا جا سکتا ہے حالانکہ یہ جزوی حصے نہیں ہوتے جو کل کی ترقی کا باعث بنے۔قدیم روم میں حکمران زعماء نے عوام کو روٹی مہیا کرنے کی ضرورت پر بہت زور دیا تاکہ انہیں پر امن اور پرسکون بنا کر اپناتحفظ کیا جاسکے۔،۔طبقاتی نظریہ بھی ظالموں کو پریشان کرتا ہے چونکہ وہ اپنے آپکو ظالم طبقہ کے طور پر تسلیم نہیں کرتے اسلئے اپنی کوشش کے با وجود سماجی طبقات کی موجودگی سے منکر نہ ہوسکنے کی وجہ سے وہ ظالم اور مظلوم طبقات کے درمیان فطری طبقاتی تضاد میں کمی پیدا کرنے کی خاطر سمجھ بوجھ اور یگانگت پیداکرنے کی تبلیغ کرتے ہیں تاہم ان دو طبقات کے درمیان موجود نہ چھپ سکنے والا تضاد اس یگانگت کو نا ممکن بناتا ہے۔ ظالم استبدادی صورتحال کو جاری رکھنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاََ یونین میں دخل اندازی،مظلوم طبقہ کے بعض نمائندگان(جو در اصل مظلوموں کے بجائے ظالموں کی نمائندگی کرتے ہیں)کی حمایت،ان لوگوں کو ترقی دینا جو اپنے اندر رہنمایانہ خوبیاں رکھتے ہیں۔وہ جو ظالموں کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں اگر انہیں مراعات کے زریعے ان کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا نہ کیا جاتا بعض لوگوں کو مراعات دینا اور بعض کو سزا دینا۔یہ تمام divide and rule کے طریقے ہیں۔ جس کا مقصد دراصل اس نظام کی حفاظت کرنا جو ظالموں کے مفاد میں ہے۔اس کو وہ directly یا indirectly استعمال کرتے ہیں۔ مظلوموں کا اتحاد انہیں اپنی غیر انسانی صورتحال کا ادراک حاصل کرکے اپنے آپکو شعور سے لیس کرتے ہیں۔جب تک وہ منقسم ہیں ۔تب تک وہ حکمرانوں کے سازشی ہتھنکڈوں کا شکار رہ کر ان کی گرفت میں زیردست رہیں گے۔ مزید براں اتحاد اور تنظیم کا شعور انہیں اپنی کمزوریوں کو ایک ایسی قوت میں تبدیل کرنے کے قابل بناتا ہے جس کی مدد سے بالآخر وہ کائنات کی دوبارہ تخلیق اور اسے مزید انسانی بنانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ مظلوم ایسی انسانیت پر مبنی کائنات بناتے ہیں جو ظالموں کی تشکیل کردہ انسانی دنیا کی ضد ہے۔۔عیارانہ ساز باز گٹھ جوڑ کے زریعے استعما ل کرنا:یہ بھی divide and rule کی حکمت عملی کی طرح عوام کو زیر کرنے کا ایک ہی ہتھیار ہے۔عوام (جو سیاسی شعور نہیں رکھتے)آسانی سے ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں استعمال ہوجاتے ہیں جو اقتدار نہیں کھونا چاہتے۔ اور جب سچی عوامی تنظیم ظالموں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے تو ایسی حالات میں وہ اپنی بچاؤ کیلئے ساز باز ہتھکنڈہ کو بروکار لاکر ایک جھوٹی تنظیم کی تخلیق کرتے ہیں وہ عوامی ابھار اور سرکشی (خواہ کتنی ہی بچگانہ یا سادہ سطح پر ہو)کو ساز باز کے زریعے روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر وہ اس میں ناکام ہوجائیں تو وہ عوام کو کچلنے کیلئے طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ اور اس طرح سچی عوامی تنظیم میں مضمر خطرے سے بچ جاتے ہیں جب عوام تاریخی عمل میں شامل ہوجاتے ہیں تو اس کے دو امکان ہوتے ہیں یا اپنے آپکو آزاد کرانے کیلئے اپنی سچی تنظیم قائم کریں اور یا عیارانہ ساز باز کی بھول بھیلوں میں بٹھک جائیں ظاہر ہے غاصب طبقات عوام کی سچی تنظیم قائم نہیں کریں گے یہ صرف انقلابی لیڈروں کی ذمہ داری ہے۔ساز باز کے زریعے افراد کو استعمال کرنیکا طریقہ کار درحقیقت افراد کے اندر زاتی کامیابی کی ہوس کا ایسا بورژوا ٹیکہ ہے جسے حکمران طبقہ بعض اوقات براہ راست اور بعض اوقات جھوٹے عوام پسند لیڈروں کے زریعے بالواسطہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بقول weffert رہنماء چند افراد پر مشتمل ایک ٹولی اور عوام کے درمیان گماشتے ہیں کا کردار ادا کرتے ہیں اسلئے جھوٹی عوام دوستیpopulism کا کسی مخصوص سیاسی عمل کے دوران یک بیک ابھرنا مظلوموں کے ابھرنے کے ساتھ رونماء ہوتا ہے۔ایسا جھوٹا عوام دوست ایک سچی تنظیم کیلئے سرگرم عمل ہونے کے بجائے ساز باز کے زریعے استعمال کرنے کی کوشش کر تا ہے۔اگر وہ انقلابی کی کوئی خدمت سرانجام دیتا ہے تو وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر۔۔۔اپنے مشکوک۔مبہم،کردار،دوغلہ پن اور ساز باز کے زریعے استعمال کرنے کے طریقہ کار کو ترک کرتے ہوئے فیصلہ کن طریقے سے اپنے لئے حقیقی عوام کردار منتخب کرتے ہوئے(اور جھوٹا عوام دوست populist نہ رہتے ہوئے) ہی وہ اپنے آپ کو تنظیم کے انقلابی کام کیلئے وقف کرسکتا ہے۔اس مر حلے میں وہ گماشتہ نہیں بلکہ تضاد بن کرابھرتا ہے اس کے ردعمل میں حکمران اسے دبانے یا کچلنے کیلئے اپنے تمام طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ساز باز کے زریعہ استعمال کرنے کے طریقوں سے ابھرنے والی ایسے تضادات سے انقلابی رہنماؤں کو فائدہ اٹھانا چاہئے انہیں چاہئے کہ وہ مطلوموں کو منظم کرنے کے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسی صورتحال کو ان کے سامنے مسئلہ کے طور پر پیش کریں۔کلچرل حملہ :کلچرل حملہ بھی پھوٹ ڈالنے اور ساز باز کے زریعے استعمال کرنے کے طریقوں کی طرح زیر کرنے ،ان میں پھوٹ ڈالے، کے مقاصد کو پورا کرتا ہے۔اس میں حملہ آور دوسرے گروپ کے ثقافت کو مسخ کرکے ان پر اپنا ثقافت ٹھونستا ہے۔اور مظلوم اسے تسلیم کرتے ہیں۔اسی طرح حملہ آور کی پوزیشن مضبوط ہوگی ۔حملہ آور گروپ کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ مظلوم کو احساس کمتری کا شکار رہ کر زندگی گزار دیں۔اور فطری طور پرحملہ آور کی برتری تسلیم کرلیں گے۔ ان کے اندر مایوسی ۔نا امیدی اور نئے تجربات سے خوفزدہ رہنے کے جراثیم پرورش کرتا ہے۔اور وہ حملہ آور کی اقدار،معیار،بول چال،رہن سہن، اور دیگر سماجی رویوں میں ان کی تقلید کو قابل فخر جانیں گے۔ یہ حملہ مزید اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ کہ کسی بھی عمل کے بارے میں فیصلے کا اختیا ر مظلوم کے بجائے حملہ آور کے ہاتھ میں ہے۔اسی طرح وہ دھوکے کا شکار ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے دست نگر reflex معاشرہ میں کوئی بھی حقیقی سماجی و معاشی ترقی ممکن نہیں ۔ در حقیقت مظلوموں کی ترقی اور آزادی اسی وقت ممکن ہے جب وہ ظالموں کی چنگل سے رہا ہوتے ہوئے ایک خود آشنا وجود کے طور پرزندہ رہنے لگیں۔مظلوم کیلئے لازم ہے کہ وہ دونوں سطحوں پر ظالم کی اطاعت کرنا چھوڑ دے۔اگربچوں کی پرورش محبت سے عاری اور جبر کے ماحول میں ہوئی ہو تو وہ اپنی قوت سے محروم ہوجانے والے بچے نوجوانی میں اس قابل ہی نہیں رہیں گے۔ کہ وہ سچی اور مستند بغاوت کا راستہ اختیار کرلیں۔وہ یا تو لاتعلقی کا شکار ہوجائیں گے یا تباہ کن عمل کی مختلف شکلیں اپنا لیں گے۔چنانچہ طلبا ء جلد دریافت کریں کہ سکون و اطمینان کی حصول کی خاطر لازمی ہے کہ وہ خود ان اصولوں کے مطابق ڈھال لیں جو ان پر مسلط کیے گئے ہیں۔اور ان اصولوں میں سے ایک ہے آزادانہ غور و فکر اور سوچ و بچار پر پا بندی۔۔۔یہ نوجوان جب پیشہ یا عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو خاص کے تجربے اور علم کے حوالے سے بھی ان میں غیر لچک دار رجحان(آزادی سے خوف کی وجہ سے) نمایاں نظر آتا ہے۔ جن کا شکار رہے ہیں۔اگر چہ ان کی بڑی تعداد آزادی سے خوفزدہ ہیں لیکن در حقیقت یہ گمراہی کا شکار ہیں۔کیونکہ ظالموں نے ان کے اندر ’’گھر‘‘ کیا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا مبہم رویہ انہیںآزادی سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ جب تک مظلوموں کے اندر گھر کیا ہوا ظالم ان سے زیادہ طاقتور ہے اس وقت تک ان کے اندر موجود آزادی کاخوف انہیں آمادہ نہیں کرسکتا۔ کہ وہ جبری حقیقت کی مذمت کرنے کے بجائے انقلابی رہنماؤں مذمت شروع کردیں۔اسلئے نہ صرف اس کی اصلاح ممکن ہے بلکہ وہ ان کی اصلاح کرے انقلابی رہنماؤں کو اس صورتحال میں ’’کلچرل انقلاب کی ابتداء کرنی چاہیئے۔ان معنوں میں ہر سچا انقلاب کلچرل انقلاب ہے۔تنظیم:مظلوموں پر قابو پانے کیلئے ظالموں کی ساز باز کے طریقے کو عوامی تنظیم ہی ناکام بناتی ہے۔یہ تنظیم نہ صرف براہ راست اتحاد کے زریعے باہم منسلک ہوتی ہے بلکہ اس قدرتی نتیجہ بھی۔چنانچہ لیڈروں کے اتحاد کی کوششیں ضروری طور پر عوام کو منظم کرنے کی کوششیں بھی ہیں۔جو اس امر کی گواہی ہیں کہ آزادی کی جدجہد تمام مظلوم عوام کا فرض ہے۔مکالماتی عمل میں ایک سچی تنظیم جرات آمیز اور محبت سے بھرپور گواہی کے زریعے اپنے مقاصد مقاصد پورا کرنے کا فرض ادا کرتی ہے۔ حکمران طبقے اپنی قوت کو پیچیدہ ڈھانچے کی شکل دیتے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو زیر کرسکیں۔لیکن انقلابی لیڈروں کی نظر میں تنظیم کا مطلب ہے لیڈروں کا اپنے آپکو عوام کے ساتھ منظم کرنا اور صرف اس صورت میں کوئی تنظیم اپنے مقاصد اور فطرت میں ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کرسکتی ہے۔۔جبکہ وہ بجائے خود آزادی پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کرے چنانچہ کسی بھی تنظیم کیلئے ضروری ہے ڈسپلن کو regimentation کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیئے۔یہ حقیقت اپنی جگی صحیح ہے کہ ڈسپلن،لیڈر شپ، مصمم ارادے،مقاصد اور دیگر زمہ داریوں کی عہدہ برآ ہوئے بغیر کوئی تنظیم زندہ نہیں رہ سکتی۔مزید یہ کہ انقلابی عمل بجائے خود تنزل کا شکار ہوجاتا ہے۔تاہم یہ امر کبھی بھی عوام کو بطور اشیاء استعمال کرنے کا جواز مہیا نہیں کرتا۔لوگ تو جبر کی وجہ سے پہلے ہی سے غیر شخصی ہوچکے ہیں۔اگر یہی صورتحال میں انقلابی لیڈر عوام کی شعوری عمل کی جانب رہنمائی کی بجائے الٹا انہیں ساز باز کے زریعے استعمال کرتے ہیں تو وہ تنظیم کے اصل مقصد (یعنی آزادی) کی نفی کرتے ہیں۔انقلابی لیڈر نہ صرف اپنا لفظ تنہا ادا نہیں کرتے بلکہ ان پر لازم ہے کہ وہ عوام کے ساتھ ملکر اپنا لفظ ادا کریں۔وہ رہنماء جو صرف اپنا فیصلہ نافذ کرتے ہیں۔وہ صرف عوام کو منظم نہیں کرسکتے انہیں ساز باز کے زریعے استعمال کرتے ہیں۔ یہ نہ ہی خود آزادہوتے ہیں اورنہ ہی وہ آزاد کرتے ہیں وہ در اصل جبر کرتے ہیں۔۔۔

0 comments:

Post a Comment

Google+