کُرد اور بلوچ قومی تحریکیں ، ایک تقابلی جائزہتحقیق ، ترجمہ و تحریر : جوان بلوچاکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے سیاسی کارکنان کرد تحریک سے ناآشنائی کے باوجود بھی اسمتعلق اتنا بحث کر جاتے ہیں کہ جتنا مواد شاید کرد مبصرین نے خود نہ لکھ چھوڑا ہو ۔ میں ذاتی حوالوں سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ ایسے غیر سنجیدہ مباحثوں کی وجہ درحقیقت بلوچوں کے کردوں سے کسی حد تک ثقافتی یکسانیت کے ساتھ ان کے انتظامی ڈھانچے ( قبائلی نظام ) اور قبضہ گیریت میں ہم سے کسی حد مماثلت ہے بہر حال کرد قومی تحریک جو یقیناً مسلسل جدوجہد و لازوال قربانیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا تسلسل ہے اس سے محض ایک تنظیم و اسکے سربراہ کے متعلق چند تصانیف کا ترجمہ کرنے کے بعد میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس کا جائزہ لیتے بلو چ قومی تحریک ( کہ جس کے متعلق میری معلومات قطعی اس موضوع کیلئے کافی نہیں ) کیساتھ موازنہ کرسکو ں بہر حال ایسی گستاخی کی حقیقی وجہ محض چیزوں کو سمجھنے کی نیت سے تعبیر ہے اس ضمن میں اگر دیکھیں تو ہم ایک طرف خود کو کردوں سے ثقافتی حوالوں سے مماثل قرارر دیتے انہیں اپنے جیسا تو قرار دیتے ہیں مگر اُن کی تحریک میں سیاسی پختگی کو دیکھتے ہم اب تک اس تنگ نظر پاکستانی سوچ سے نہیں ابھر پائے کہ جس کے تحت عورت محض بچے پالنے والی مخلوق ہے کرد قومی تحریک کا سطحی مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات کسی بھی بلوچ مبصر کو کافی مرغوب کرجائے گی کہ PKK نے اپنے مارکسٹ نظریات کے تناظر میں جنسی برابری کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس تنظیم نے اس کا عملی طورپر ثبوت پیش کرتے قومی آزادی کی جدوجہد کرنے کیلئے عورتوں کو اپنی فوج میں بھرتی بھی کیا ۔ ایک جریدے میں PKK انسانی برادری کے اپنے اس عمل کا اقرار کرتے یہ بات قبول کرتی ہے کہ تنظیم کے قیام کے وقت عورتوں کی تعداد انتہائی قلیل تھی لہذا ہم نے حوصلہ افزاء تعداد بڑھانے کیلئے شعوری طورپر اپنے معاشرے میں خوب کام کیا اور 1990ء کی دہائی کے ابتدائی دنوں ہمارے کل مسلح لوگوں میں سے%30مسلح کارکنان عورتیں ہیں مزید براں اگر ہم PKK کے ایک قبائلی معاشرے میں ایسی مثالی تبدیلی کو محض دعویٰ بھی سمجھیں تو ہمیں ان کے اس دعوے کو حقیقت تسلیم کرنے کیلئے متعدد ثبوت مہیا کئے جاسکتے ہیں مثلاً ہم 1990ء میں اس تنظیم کے خود کش حملوں کا اگر مطالعہ کریں تو وہ خود بہم ایک ثبوت کے طورپر اس دعوے کو سچ ثابت کرتی ہے کیونکہ ان وقتوں 15خود کش حملوں میں سے 11خود کش حملہ آور کرد خواتین تھیں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک اپنے سیاسی پلیٹ فارم میں بھی عورتوں کے سرگرم رہنے میں اس حد تک کامیاب نہیں کہ جس پر فخر کیاجاسکے مزید یہ کہ موجودہ سیاسی ماحول میں خواتین پینل کے نام سے کام کرنے والی متعدد جماعتیں بھی صرف ایک دوسرے کو اصلی و نقلی پینل ثابت کرنے کے مباحثوں میں مصروف دکھائی دیتی ہیں جو خالصتاً پاکستانی طرز سیاست کی عکاسی ہے کہ جہاں خود کو سیاسی جماعتیں کہلاوانے والی تنظیمیں فقط ایک دوسرے کو نیچا ثابت کرنے کی جدوجہد میں عوام کو مصروف رکھتے فوج کو سیاسی طاقت بادستور رکھنے کا موقع عطا کرتے قوموں کو غلام رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں حالانکہ تاریخی حوالوں سے دیکھیں تو واقعتاً ہم کردوں سے مماثلت رکھنے والی حقیقی سیکولر قوم ہیں ہمارے یہاں بھی ماؤں نے گلزمین کی حفاظت کرتے شہادت نوش کیں مغربی بلوچستان میں ناز بی بی ( داد شاہ کی بہن ) نے اپنے بھائی کے ہمراہ لڑتے یہ سچ کر دکھایا کہ بلوچ معاشرہ ہر حوالے اور ہر حالات میں انسانی برابری کے فلسفے پر قائم رہتے اپنے سیکولر و مثبت سوچ کے باعث کافی پُرکشش ہے ۔دوسری جانب یہ بات بھی اُن دوستوں کو شاید اعصابی ہیجان میں ڈال دے جو کہ کرد تحریک سے ناآشنا ہوئے محض خیالی صورت گری کرتے اپنے تنظیمی فرائض کہ جس میں تنظیم کیلئے مالی معاونت کی پالیسیاں بھی تشکیل دینا ہوں اس سے راہ فرار اختیار کرتے خود کو کردوں کی جدوجہد کے مشابہے قرار دیتے ہیں اس زمرے میں یہ بات غور طلب ہے کہ ایک انداز ے کے مطابق محض PKK کا سالانہ بجٹ قریب 500 ملین یورو تھا اس بجٹ کو مزید سمجھنے کیلئے اگر پاکستانی کرنسی میں بدلا جائے تو یہ رقم تقریباً 59ارب 32 کروڑ اور50لاکھ کے قریب قریب بنتی ہے اور مزید اگر اس رقم کی اہمیت سمجھی جائے تو یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ رقم مالدیپ،مورتانیہ،گانا،زمبابوے، کانگو،سرینام جیسے ممالک کے سالانہ محصولیات (Revenue)کے مماثل ہے ۔یہ مالی ہدفPKK جیسی تنظیم کے سربراہان و کارکنان نے کافی محنت سے حاصل کررکھا تھا کہ جس کے لئے سالوں تک منصوبہ بندی کی گئی تھی اس ہدف کو پورا کرنے کیلئے تنظیم نے نہ صرف قانونی طور سے خود مختلف کاروباروں میں حصہ ڈالا بلکہ دنیا بھر میں موجود کرد بیوپاریوں و کاروباری اشخاص کو اکٹھا کرتے INTERNATIONAL KURDISH BUSINESSMEN UNION قائم کی ۔ مزید براں تنظیم نے دنیا بھر میں موجود دیگر آزادانہ اداروں کے ساتھ ملتے میوزیکل پروگرام موسیقی کے محفل و دعوتیں رکھتے بھی اپنے لئے فنڈز جمع کئے گوکہ PKK پر منشیات کی اسملنگ سے اپنے لئے فنڈز جمع کرنے کا بھی الزام ہے مگر اس تنظیم کے متعلق اس بات کو بھی مانا جاتا ہے کہ PKK اپنی نوعیت کی اُن تنظیموں میں سے ہے کہ جس نے اپنی اشاعت کی گئی متعدد سیاسی و انقلابی لٹریچر کو دنیا بھر میں بیچنے سے بھی خوب فنڈ جمع کیا جو بالا تنقید ایک قابل ستائش عمل ہے اس کے علاوہ موثر منصوبہ بندی کے تحت اس تنظیم نے اپنی ذیلی تنظیموں کی بنیاد ڈالتے اپنے لئے آمدن و حمایت کے بہترین مواقع پیدا کئے ان میں یورپ میں قائم CONFEDERATION OF KURDISH ASSOCIAATION کا نام سرفہرست ہے ۔اس تنظیم کے حوالے سے بلوچ قومی تحریک کا جائزہ لیتے ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس تنظیم نے انتہائی موثر عالمی ترک پروپیگنڈے کا سخت حالات میں بھی مقابلہ کیا ہم دیکھتے ہیں کہ ترکی نے جب شام کو عبداللہ اوجلان کی حمایت پر تنبیہ کیا تو وہ تواتر سے اپنی جگہیں بدلنے کے باوجود بھی تنظیم کو اپنے موقف پر قائم رکھتے جدوجہد کرنے کیلئے عمل پیرا ہے حالانکہ ترکی کے سخت موقف کے باعث روس ، اٹلی ، یونان ، جرمنی اور یورپ بھر میں جب عبداللہ اوجلان کو سیاسی پناہ کیلئے انکار کیا گیا تب بھی تنظیمی اموار بادستور اپنے ہدف کی جانب بڑھتے رہے اور قوم نے یک جٹ ہوئے اس عالمی پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا اس بات سے ہی یہ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ کرد معاشرے میں موجود سیاسی طاقتیں کس قدر منظم تھیں جبکہ ایسی ہی صورتحال سے ہم اپنے ایک قومی قائد کو دیکھتے اپنی کمزوریوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس میں ہماری سیاسی جماعتیں اُن کیلئے سیاسی پناہ کا جواز بنانے کیلئے ایک دستخطی مہم (SIGNATURE COMPAIGN) بھی ڈھنگ سے نہ چلاپائی اور جب اس عظیم انسان کو بلوچ قوم کیلئے جدوجہد کرنے کی پاداش میں جیوری کے سامنے لانے کا خیال ظاہر ہوا تو ہم ایک مترجم و ان کی صفائی میں ثبوت کی تلاش میں یہاں وہاں سرگرداں ہوئے اسی طرح اگر ہم کردوں کے موقف کی تشہیر کا اپنے تشہیری حکمت عملی سے جائزہ لیں تو ہمیں وہاں بھی اپنی نمایاں خامیوں کا اندازہ ہوسکتا ہے مثلاً کیمیائی ہتھیاروں سے معصوم لوگوں کے قتل کی داستان کرد اور بلوچ دونوں میں یکساں ہے مگر کرد تحریک کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انسانیت کے فلسفوں پر قائم بین الاقوامی سطح پر سرگرم ہونے والی متعدد تنظیموں کو شاید آج تک بلوچوں پر ہونیوالے مظالم مکمل طورپر سے اداراک ہی نہیں جبکہ کرد تحریک آزادی میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اُن کے فعال پروپیگنڈے کے سبب یورپ بھر میں نہ صرف ان تصویر میں شہید ہونیوالے افراد کی شہادت بذریعہ کیمیائی ہتھیار کی تصدیق ہوئی بلکہ جرمنی جیسے طاقتور یورپی ملک جو خود ترکی کا سابقہ اتحادی رہ چکا ہے اس معاملے میں انتہائی سخت موقف اختیار کرتے ترکی کو سخت آزمائش میں ڈالا اور اس سانحے کی باضابطہ تحقیقات کا حکم دیا اسی طرح کے منظم پروپیگنڈے کے باعث ہی عراق کے فوجی کمانڈر چیف اور عراقی خفیہ خبر رساں ادارے کے سربراہ علی حسن ابدالماجد (Ali Hassan Abd al-Majid al-Tikriti) جو صدام کے چچازاد بھائی تھے ۔اُنہیں دنیا بھر میں (کیمیکل علیChemical Ali-) کا لقب دیتے انسانیت کا مجرم گردانا گیا جسے حالایہ ادوار میں اس جرم کے عیوض سزائے موت بھی ہوئی ۔ مگر اس حوالے سے ہماری پروپیگنڈہ مشینری اس قدر زنگ آلود رہی کہ خود ہماری قوم کو ہی ایسے واقعات کا علم نہیں کہ جس سے پاکستانی بربریت کی صحیح جھلک نمایاں ہو ۔کرد قومی تحریک اور بلوچ قوم کی حالت زار میں بنیادی مماثلت اُن کے سرزمین کا مختلف قبضہ گیر طاقتوں کے بیچ تقسیم ہونا ہے اور ہم سطحی مطالعہ کرنے کے بعد بھی یہ جان سکتے ہیں کہ کرد تحریک اپنی عوامی مقبولیت کے باعث اپنی کل مقبوضہ سرزمین میں نہ صرف متعارف ہے بلکہ بڑی حد تک عوامی شرکت کی متعمل بھی ہے ایران ، ترکی و عراق بھر میں یہ تحریک اپنے جدا جدا رنگ میں نہ صرف اپنا وجود رکھتی ہے بلکہ مشترکہ مقاصد کے حصول میں اُن کے بیچ ہم آہنگی بھی دیکھی جاسکتی ہے اس کے مقابل ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی بلوچستان میں قومی جذبات گو کہ بعض دفعہ اپنے مذہبی رنگ میں ظاہر ہوجاتی ہے مگر وہاں قومی شعور کے تحت آزادی کی جدوجہد کرنے والی کوئی نمایاں تحریک نہیں اور یہ مجموعی حوالوں سے ہماری سیاسی ناپختگی کو ظاہر کرتی ہے اس زمرے میں عموماً یہ منطق دی جاتی ہے کہ ایران جیسے غاضب قبضہ گیری طاقت کے پیش نظر وہاں سیاسی رجحانات کی ترویج کیلئے کام کیاجانا تقریباً ناممکن ہے مگر ایسے دلائل کو قومی آزادی جیسی نعمت سے محروم ہونے کیلئے پیش کیاجانا میرے نزدیک زیادہ غیر سیاسی خیال ہے جسے توڑنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کردوں نے اس طفلانہ معذرت کو رد کرتے وہاں قومی سیاست و آزادی کا شعور دینے کیلئے کافی کامیابی حاصل کی ۔بلوچ قومی تحریک و کرد مزاحمت کا تقابلی جائزہ لینے میں یہ ایک آخری نقطہ بھی پیش کرنا چاہونگا جو کرد تحریک کو سمجھنے والے کسی بھی طالب علم کیلئے بے حد پُرکشش ہو ۔ یہ نقطہ اس تحریک میں موجود محض ایک تنظیم (PKK) کے بین الاقوامی اور داخلی روابط سے جڑا ہے جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ شام سے اس تنظیم کے تعلقات اس قدر گہرے تھے کہ اس تنظیم کا پہلا مسلح کیمپ بیکاوادی (BEKAA VALLEG) میں شام کی مدد سے قائم کیا گیا مزید یہ کہ ایران جو بعض معاملات میں کرد تحریک کو اپنے لئے ایک خطرہ سمجھتا اُس پر بھی ترکی کو کمزور کرنے کی سازش کے تحت فنڈز و ہتھیار کی فراوانی کے الزامات ہیں مزید براں یہ بات تو دنیا بھر میں عیاں ہے کہ PKK کے ٹریننگ کیمپ میں یونان کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ و ایڈمرل تک دورہ کرچکے ہیں اور جن میں بیشتر نے اپنی پاداشتوں کے تحت یہ الزام بھی شبہ سے مبرا نہیں کہ نوے کی دہائی میں یونان کردوں کو برائے راست مدد فراہم کرنے میں شریک تھا ساتھ ہی اگر ہم عبداللہ اوجلان کی گرفتاری سے متعلق خود کرد سیاسی حلقوں میں موجود سیاسی مباحثوں کا گر تجزیہ کریں تو یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان کے مطابق عبداللہ اوجلان نے بیروبی (کینیا ۔ افریقہ ) میں گرفتاری سے قبل یونانی سفارت خانے میں سیاسی پناہ لے رکھی تھی اور اگر ہم عبداللہ اوجلان کی گرفتاری کے تمام تر مراحل کا جائزہ لیں تو اٹلی میں موجود سابقہ لیفٹیننٹ حکمرانوں سے بھی ان کے تنظیمی تعلقات کا ادراک ہوتا ہے جبکہ اُن کی گرفتاری کے وقت اُن سے برآمد ہونیوالا پاسپورٹ جو قبرض (CYPRUS ) اس بات کی نشاندہی کرنے کیلئے کافی ہے کہ قبرض سے بھی اُن کے معاملات چلے آرہے تھے عبداللہ اوجلان کا روس جانا اور ان کے کیمونسٹ نظریات سے USSR سے قربت کے باعث اس الزام میں بھی کافی وزن ہے کہ عبداللہ اوجلان کی فوجی تربیت میں KGB ( سابقہ روس کا خفیہ ادارہ ) کا کردار ہے جبکہ ہم دیکھتے بھی ہیں کہ روس اب تک اُن ممالک میں سے ایک ہے کہ جس نے بے جا ترک دباؤ کے باوجود بھی PKK کو دہشت گرد تنظیم ماننے سے انکار کررکھا ہے اگر تجزیے کا دائرہ اور بڑھائیں تو بیلجیم میں ان کی ذیلی تنظیموں کا آزادانہ کام کرنا اور خصوصاًانگلستان میں قائم کردوں کی MEDTV کی آزادانہ براڈکاسٹنگ کے باعث انگلستان کےکرد تحریک سے روابط کا بھی اندیشہ کسی حد تک جائز ہے اسی طرح اگر اس تنظیم کے داخلی رابطوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ تنظیم کسی نہ کسی صورت دنیا بھر کے کردوں سے جڑی تھی یورپ بھر میں اپنے قانونی و جائز سرگرمیوں کی بدولت اپنی ذیلی تنظیموں کے توسط اس تنظیم نے یورپ بھر میں موجود تمام کردوں کو اپنی سرزمین سے محبت جیسے عظیم جذبے سے سرشار کیا اس کے علاوہ ایران ، عراق و شام میں موجود کردوں میں بھی خوب قربت پیدا کی جبکہ اس تنظیم کی چند اہم کارروائیوں کے متعلق اس بات کے بھی واضح ثبوت ہیں کہ ان کی چند کارروائیوں میں آرمینین مسلح تنظیموں کی بھی معاونت شامل ہے ۔ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے بلوچ قومی تحریک میں موجود متعدد تنظیموں کی بین الاقوامی تعلقات استوار نہ کرنے جیسی اہم کمزوری کو محسوس کیاجانا فطری ہے گو کہ ہماری تنظیمیں ( بشموم مسلح تنظیموں کے دیگر سے روابط کے متعلق معلومات کا ہر خاص و عام کو علم نہیں مگر اس زمرے میں اگر ہم سطحی تجزیہ کریں تو ہمارے قومی رہبروں کا دنیا بھر سے مدد کیلئے اپنی درخواست کی پکار لگانا اس بات کا اشارہ ہے کہ مجموعی حوالوں سے ہمیں اس مد میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
 

 



3 comments:

  1. https://haqetawar.wordpress.com/2012/04/18/kurd-baloch-struggle/

    Please mention the original link

    ReplyDelete
  2. https://haqetawar.wordpress.com/2012/04/18/kurd-baloch-struggle/

    Please mention the original link

    ReplyDelete
  3. This article was published in haqetawar.wordpress.com but u didn't mention the blog address ... please give the address of website or blog where you are coping from .

    ReplyDelete

Google+