بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام عیدالفطر کے موقع پر احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں ایک بار پھر حکومت سے لاپتا افراد کی بازیابی کا مطالبہ دہرایا گیا۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ سے شروع ہونے والی اس ریلی میں انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔
ریلی کے شرکا سے خطاب میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نائب صدر ماما قدیر نے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ لاپتا بلوچ نوجوانوں کو بازیاب کرایا جائے اور کسی کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو اُس عدالت میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت ہزاروں بلوچ نوجوان لاپتا ہیں جن کے بارے میں لواحقین کو کچھ بتایا بھی نہیں جا رہا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ماما قدیر کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم لاپتا افراد کے لواحقین کےساتھ مل کر گزشتہ نو عیدیں اسی طرح احتجاج کرتے ہوئے گزار چکی ہے لیکن ان کے بقول اب تک اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔
"جب تک کہ ہمارا ایک بھی لاپتا فرد بازیاب نہیں ہوتا  اس وقت تک ہمارے احتجاج جاری رہیں گے۔ آج مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے خوشی کا دن ہے۔ ہر گھر میں خوشی منا رہے ہیں لیکن بلوچستان میں ہر بلوچ کے گھر ماتم ہے۔ ہر گھر سے دو آدمی اٹھائے گئے ہیں یا شہید کیے گئے ہیں تو ان حالات میں کون خوشی منائے گا۔"
ماما قدیر کا نام خاص طور پر اس وقت بین الاقوامی سطح پر منظر عام پر آیا جب انھوں نے رواں سال اوائل میں لاپتا افراد کے لواحقین کے ہمراہ کوئٹہ سے اسلام آباد تک کا دو ہزار کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ پیدل طے کیا۔
گزشتہ کئی برسوں سے بلوچستان میں لاپتا افراد اور جبری گمشدگیوں کے واقعات اور ان کے خلاف احتجاج چلتا آ رہا ہے۔ انسانی حقوق کی بعض غیر جانبدار تنظیموں کے مطابق احتجاج کرنے والوں کے دعوؤں کے برعکس لاپتا افراد کی تعداد ہزاروں نہیں سینکڑوں میں ہو سکتی ہے جب کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے پاس صرف 47 لاپتا افراد کی شکایت درج کروائی گئی ہے۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں بھی لاپتا افراد سے متعلق مقدمات زیر سماعت ہیں۔
لاپتا افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں کو الزام عام طور پر سکیورٹی ایجنسیوں پر عائد کرتے ہیں جسے حکومت اور سکیورٹی فورسز مسترد کرتی آئی ہیں۔


0 comments:

Post a Comment

Google+