‘Expel girls or close down’
August 1,2014
Private schools shut down in Panjgur after threats by local religious group
At least 23 private schools and English language centers in Balochistan’s western Panjgur district have been closed since April 25 because of threats and intimidation by a previously unheard-of militant group Tanzeemul Islamul Furqan. Armed men belonging to the group barged into schools and warned the teachers and students against co-education, which they said was not allowed in Islam. They fired warning shots as they told them to either shut down or send their girl students home.
“After threatening teachers and students of various institutions, the masked armed men indiscriminately fired gunshots into the air and vandalized their property,” one of the teachers said. “They beat up a teacher and took away Rs 14,000 from him.”
The religious group has sent threatening letters written in Urdu to schools across Panjgur asking them to expel girl students, and also warned taxi and van drivers against taking girls to school.
Following the threats and intimidation, on 14 May, unidentified men carrying weapons stopped Maj (r) Hussain Ali when he was taking girls to his own private school, the Oasis School, in a van. They beat him up and set the van ablaze. The students fled unhurt.
“In Balochistan’s Makran division, Panjgur is comparatively religious, with almost 100 madrassas and annual teaching activities,” according to Noor Ahmed, another schoolteacher based in Panjgur. “That is why religious fundamentalism is increasing day by day, and teachers are being intimidated for tutoring girls.”
He said teachers like him continued with their jobs despite having received threats by telephone. “But when they started barging into schools and assaulting us for performing our duties, we decided to close down all private institutions.”

Women have traditionally played a pivotal role in the nomadic lifestyle of the Baloch in history, according to veteran Baloch leader Dr Abdul Hayee Baloch, who is a former president of the National Party. “We are concerned about the threats to girls’ education in Makran, and particularly in Panjgur,” he said. “This situation is being created deliberately in order to malign the Baloch political movement internationally and to keep our daughters away from their fundamental right of education.”

He also criticized confiscation of books in raids by police and the paramilitary Frontier Corps (FC) in Turbat and Gwadar this year.
In January, FC men raided a book fair at the Atta Shad Degree College in Turbat, and seized what they said was separatist literature. In April, there were reports of a similar raid by the police in Gwadar, in which two shopkeepers were arrested.
“There have been raids against books that are about our culture, history and literature,” Dr Baloch said. “Baloch political parties should resist.”
Panjgur was hit by a Baloch nationalist insurgency after the killing of Balochistan’s former chief minister Nawab Akbar Khan Bugti in 2006, “and the state actors assume that our private institutions are nurseries for separatists”, said school teacher Anwar Baloch. “But that is not true. We are merely imparting education.”
Dr Ababagar, a young Baloch educationist based in Quetta, criticized the provincial government for not playing its due role and re-open private schools in Panjgur. He said officials of the provincial government did not even pay a visit to Panjgur after the incident.
Meanwhile, hundreds of people meanwhile took to the streets against the threats to private schools in Panjgur, said local reporter Barket Jeeven. They included girls holding banners saying education was their fundamental right.
“The district administration only convened a meeting of local clerics and Panjgur Private Schools Association,” said Ababagar, “but it ended without any effective outcome.”
Anwar Baloch said teachers from Panjgur had met Chief Minister Dr Abdul Malik Baloch in Quetta and asked him for help. He promised them security, but the teachers want a more fundamental resolution of the issue, he said.
Locals say girls in Panjgur feel threatened, especially after the two incidents of men spraying acid on six girls’ faces in the Quetta and Mastung districts of Balochistan when they were shopping for Eid last month.
Names of the teachers have been changed to protect their identity
By: Muhammad Akbar Notezai

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام عیدالفطر کے موقع پر احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں ایک بار پھر حکومت سے لاپتا افراد کی بازیابی کا مطالبہ دہرایا گیا۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ سے شروع ہونے والی اس ریلی میں انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔
ریلی کے شرکا سے خطاب میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نائب صدر ماما قدیر نے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ لاپتا بلوچ نوجوانوں کو بازیاب کرایا جائے اور کسی کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو اُس عدالت میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت ہزاروں بلوچ نوجوان لاپتا ہیں جن کے بارے میں لواحقین کو کچھ بتایا بھی نہیں جا رہا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ماما قدیر کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم لاپتا افراد کے لواحقین کےساتھ مل کر گزشتہ نو عیدیں اسی طرح احتجاج کرتے ہوئے گزار چکی ہے لیکن ان کے بقول اب تک اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔
"جب تک کہ ہمارا ایک بھی لاپتا فرد بازیاب نہیں ہوتا  اس وقت تک ہمارے احتجاج جاری رہیں گے۔ آج مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے خوشی کا دن ہے۔ ہر گھر میں خوشی منا رہے ہیں لیکن بلوچستان میں ہر بلوچ کے گھر ماتم ہے۔ ہر گھر سے دو آدمی اٹھائے گئے ہیں یا شہید کیے گئے ہیں تو ان حالات میں کون خوشی منائے گا۔"
ماما قدیر کا نام خاص طور پر اس وقت بین الاقوامی سطح پر منظر عام پر آیا جب انھوں نے رواں سال اوائل میں لاپتا افراد کے لواحقین کے ہمراہ کوئٹہ سے اسلام آباد تک کا دو ہزار کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ پیدل طے کیا۔
گزشتہ کئی برسوں سے بلوچستان میں لاپتا افراد اور جبری گمشدگیوں کے واقعات اور ان کے خلاف احتجاج چلتا آ رہا ہے۔ انسانی حقوق کی بعض غیر جانبدار تنظیموں کے مطابق احتجاج کرنے والوں کے دعوؤں کے برعکس لاپتا افراد کی تعداد ہزاروں نہیں سینکڑوں میں ہو سکتی ہے جب کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے پاس صرف 47 لاپتا افراد کی شکایت درج کروائی گئی ہے۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں بھی لاپتا افراد سے متعلق مقدمات زیر سماعت ہیں۔
لاپتا افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں کو الزام عام طور پر سکیورٹی ایجنسیوں پر عائد کرتے ہیں جسے حکومت اور سکیورٹی فورسز مسترد کرتی آئی ہیں۔



لندن( این این آئی) بلوچ رہنماء میر جاوید مینگل نے مذہبی انتہاء پسندوں کی جانب سے کوئٹہ و مستونگ میں خواتین پر تیزاب پھینکنے اور پنجگور میں بچیوں کی تعلیم پر قدغن لگانے، تعلیمی اداروں کے بندش کی بھر پور الفاظ سے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذہبی انتہاء پسندوں نے خواتین کی چہروں کو نہیں بلکہ بلوچ روایات، اقدار، اور انسانیت کی چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہیں۔ قبضہ گیر ریاست اور اْس کے گماشتے بلوچ قومی تحریک میں بلوچ خواتین کی کردار اور سرگرم عمل ہونے سے خوفزدہ ہوچکے ہیں۔ اب اوچھے ہتکھں ڈوں کی زریعے خواتین کو ٹارگٹ کی جارہا ہے۔ بلوچ خواتین نے جس بہادری کا مظاہرہ کرکے باباء4 بلوچ نواب خیر بخش مری کے جسد خاکی کو فوج اور اْن کے کاسہ لیسوں کے قبضے سے اپنی تحویل میں لیکر قومی اعزاز کے ساتھ سپردخاک کیا۔ اس کے علاوہ لاپتہ بلوچ فرزندوں کی بازیابی کے تحریک اور لانگ مارچ میں بلوچ بیٹیوں کے کردار تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ آئی ایس آئی اور اْس کے کارندے اب اس طرح کی حرکتیں کرکے انہیں قومی جہد سے دور کوشش کررہے ہیں لیکن وہ اس طرح کے غلیظ حرکتوں سے بلوچ خواتین کو خوفزدہ نہیں کرسکتے۔ میر جاوید مینگل نے مزید کہا یہ خواتین پر تیزاب پھینکنے کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل خضدار، خاران، قلات سمیت دیگر علاقوں میں اس طرح کی دلخراش واقعات پیش آئیں ہیں اور کوئٹہ میں انہی مذہبی قوتوں نے طالبات کی بس کو اپنی حیوانیت کا نشانہ بناچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قابض پاکستانی فوج بلوچ سیاسی و قبائلی روایات کو روند کر ایک گہری سازش کے زریعے بلوچستان میں مذہبی انتہاء پسندی کو پروان چڑھا رہی ہے لیکن بلوچ ایک لبرل اور سیکولر قوم ہے۔ بلوچستان اور بلوچ معاشرے میں مذہبی جنونیت اور درندگی کی کوئی گنجائش نہیں۔ میر جاوید مینگل نے کہا کہ آئی ایس آئی اور فوج نے طالبان کے زریعے پشتون کلچرل کو ملیامیٹ کرنے اور تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کے بعد اب بلوچستان کا رْخ کرچکے ہیں۔ پنجگور میں گزشتہ کئی ماہ سے گرلز تعلیمی ادارے بند ہیں۔ خواتین کی تعلیم حاصل کرنے پر جبری پابندی، اسکولوں کی بندش اور خواتین پر تیزاب پھیکنے میں قابض ریاست کے تشکیل کردہ مذہبی دہشت گرد تنظیمیں اور ڈیتھ اسکواڈز ملوث ہیں جو بلوچ قوم کے آزادی کی تحریک کو کاونٹر کرنے اور عالمی سطع پر بدنام کرنے کے لئے اس طرح کے انتہاء4 پسند قوتوں و تنظیموں کی افزائش اور حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔میر جاوید مینگل نے مزید کہا کہ بلوچ قوم اور آزادی پسند قوتیں مذہبی جنونی ملاوں کا راستہ روکنے اور ایسے واقعات کی تدارک کے لئے متحد ہوجائیں اور اْنہیں منہ توڑ جواب دیں۔ اْنہوں نے عالمی اداروں اور مہذب ممالک سے اپیل کی ہیکہ وہ پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں طالبائزیشن کو پروان چڑھانے سے روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں ایسا نہ ہو کہ پاکستان اور اْس کے خفیہ ادروں کی اسپونسرڈ مذہبی انتہاء پسند پورے خطے کو اپنی لیپٹ میں لے آئے۔








رکھنے کی ناکام

قابض پاکستان ہمارے خواتین پر تیزاب پھینک کر ہمیں یہی احساس دلا رہا ہے کہ ہم غلام ہیں ۔ حیر بیار مری
لندن (بی یوسی نیوز) بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے اپنے بیان میں پاکستان کے فوج اور آئی ایس 
آئی کے پیر رول پر چلنے والے مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے بلوچ خواتین پر تیزاب پھینکنے کو غیر انسانی اور غیر اخلاقی فعل قرار دے کر اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت بلوچستا ن میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے تاکہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کاوٗنٹر کر سکے جیسے جیسے بلوچ قومی آزادی کی تحریک زور پکڑتا جارہا ہے بلوچستان میں پاکستانی ایجنسیوں اور آرمی کے پالے ہوئے مذہبی انتہاپسندوں کی کاروائیوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں خصوصی طور پر بلوچ خواتین کو ٹارگٹ بنایا جار ہا ہے کیونکہ اس وقت بلوچ خواتین بلوچ قومی آزادی کے لیے اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ ہی جدوجہد کر رہے ہیں حال ہی میں مستونگ اور کوئٹہ میں بلوچ خواتین پر تیزاب پھینکے کا واقعہ پاکستانی ایجنسیوں اور فوج کے بزدلانہ حرکتوں کو واضع کرتا ہے۔انہوں نے کہا بلوچ معاشرے میں خواتین کو ایک معزز مقام حاصل ہے لیکن آج قابض پاکستان ہمارے خواتین پر تیزاب پھینک کر ہمیں یہی احساس دلا رہا ہے کہ ہم غلام ہیں اور ہمارے قسمت کا فیصلہ صرف قابض کر سکتا ہے ہماری شناخت مٹانے کے ساتھ ساتھ ہمارے ننگ و ناموس کے چہرے بگاڑنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسخ شدہ لاشیں ملنے کے ساتھ بلوچ عورتوں پر تیزاب پھینکنے کا سلسلہ پاکستانی فوج ایجنسیوں کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہیں پاکستانی فوج بلوچ قوم کی خاص کر بلوچ نوجوانوں اور بہنوں کی جدوجہد کی وجہ سے حواس باختہ ہے جس کا مثال کچھ مہینے پہلے پنجگور میں بلوچ خواتین کو تعلیم کے زیور سے دور کرنے کے لیے پاکستان نے اپنے مذہبی اور ڈیتھ سکواڈز کے زریعے لڑکیوں کی تعلیمی بندش کا سلسلہ شروع کیا تین مہینے سے پنجگور میں لڑکیوں کے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔حیربیار مری نے کہا پاکستانی ایجنسیاں اور فوج پنجاب کو آگے لے جانے کے لیے بلوچستان ور پشتونخوا میں اپنے مذہبی انتہاپسندوں کے زریعے تعلیم کو تباہ کر رہا ہے۔ اور خواتین جو کہ کسی معاشرے کی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں انہیں گھروں تک محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی طرح دنیا کو انہی مذہبی انتہاپسندوں کے نام پر بے وقوف بنا کر اورپیسے بٹورکر پنجاب کی ترقی خوشخالی اور تعلیم کے لیے استعمال کر رہا ہے پنجاب کی یونیورسٹیوں میں لڑکے اور لڑکیا ں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کے لیے سب ٹھیک ہے لیکن بلوچ اور پشتون کے خواتینسودا سلف کے لیے باہر نکلتے ہیں ان پر تیزاب پھینکا جاتا ہے سکولوں کو بموں سے اڑایا جاتا ہے تاکہ وہمقبوضہ بلوچستان اور پشتونخوا کو اپنے مذہبی انتہاپسندوں کے زریعے تعلیم سے دور رکھ کر ہمیشہ کے لیے غلام بناسکیں اوران کے نام پر اپنے آپ کو ترقی دے سکیں۔حیربیار نے کہا کہ بلوچ معاشرہ جو ہزاروں سال سے اعتدال پسند رہا ہے اسے قابض پاکستانی ریاست اسے انتہا پسندی کی طرف لے جار ہا ہے جو کل یہ دوسرا وزیرستان بھی بن سکتا ہے وزیرستان وغیرہ میں بھی پاکستان نے پہلے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگایا اور خواتین کے چہروں پر تیزاب پھینکے اگر اس وقت انہیں کنڑرول کیا جاتا تو آج دنیا کے لیے وہ درد سر نہیں بنتے بلوچستان میں ابھی یہ نیا نیا شروع ہوا ہے اس لیے بین الاقوامی دنیا کو پاکستان اوار اس کے ڈیتھ سکواڈ مذہبی جنونی لوگوں کے عمل اور حرکت کا نوٹس لینے چاہیے تاکہ پاکستان کی مذہبی جنونیت کو پھیلنے سے وقت پر روکا جا سکے دنیا کو اس گمبیرمسلئے کی ایمیت کوسمجنا چایہے







ثیم انور
یوں تو بلوچستان میں بلخصوص بلوچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی داستاں بہت طویل ہے۔ 1948 میں بلوچستان پر غاصبانہ قبضے سے لے کر تاحال جاری بربریت اور ظلم و ستم میں ہزاروں بلوچوں کو مارا گیا۔ 1948 کے بعد 1958-59، 1963-69، 1973_77 اور 2001 سے اب تک بلوچوں کے خلاف ملٹری آپریشن کئے گئے۔ لیکن بلوچستان کے اس طویل بحران میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بلوچ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ ریاستی اداروں کے خلاف تحریک میں شامل ہوئیں ہیں۔ بلخصوص ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے بلوچوں کی بازیابی کے لئے بلوچ خواتیں کا کردار دن بدن مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچوں کے حقوق کی اس جنگ میں چاہے وہ مظاہرے ہوں، دھرنے ہوں، ریلیاں ہوں، لانگ مارچ ہو، سیمینار ہوں، پریس کانفرنس ہوں یا بھوک ہڑتالی کیمپ، بلوچ خواتین ہر پلیٹ فارم پر اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلاتی ہیں۔
پاکستان میں بلوچ خواتین کے بارے میں عام تاثر یہ قائم کیا گیا تھا کہ انہیں ان پڑھ رکھا جاتا ہے اور چار دیواری سے باہر کی دنیا ان کے لئے ممنوع ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں بلوچوں کی آذادیِ حقوق کی تحریک میں بلوچ خواتین کی شمولیت نے نہ صرف اس تاثر کو غلط ثابت کیا بلکہ اس تحریک کو ایک نیا موڑ بھی دیا ہے۔ کریمہ بلوچ، فرزانہ مجید، حورن بلوچ، زر جان بلوچ چند ایسی بلوچ خواتین ہیں جو بلوچستان میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہونے والت اغواء، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بلوچ عوام کی آواز بن گئیں ہیں۔
لیکن جہاں ایک طرف بلوچ خواتین کی شمولیت نے بلوچستان کی تحریک کو ایک نیا موڑ دیا ہے، وہیں ریاستی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کے بلوچوں کے خلاف رویوں اور حربوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ 2013 تک یہ حربے بلوچ مردوں کے لاپتہ ہونے، مسخ شدہ لاشوں اور ملٹری آپریشن تک محدود تھا، لیکن اب ان حربوں میں بلوچ خواتین کو ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ بھی شروع کو دیا گیا ہے۔ مئی 2014 میں پنجگور میں قائم اسکولوں کو جاری کئے گئے دھمکی آمیز خطوط میں صرف اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ بلوچ لڑکیاں تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دیں اور گھروں میں بیٹھ جایئں بصورتِ دیگر انہیں سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ جبکہ حالیہ دنوں میں کوئٹہ میں چار اور مستونگ میں دو خواتین پر تیزاب پھینکا گیا۔ ان چھ خواتین میں صرف ایک پہلو مشترک ہے کہ یہ سب بلوچ ہیں۔ اور ان سب اوچھے ہتھکنڈوں کا مقصد بھی صرف ایک ہے کہ بلوچ خواتین اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود ہو جائیں۔
اس تمام صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اگر بلوچ خواتین تحریکِ بلوچستان سے پیچھے نہیں ہٹتیں تو آنے والے دنوں میں ان کے ساتھ اور کیا سلوک کیا جائے گا؟ نہ آج تک دھمکی آمیز خطوط بھیجنے والی تنظیم الاسلام الفرقان کا پتا چلا اور نہ ہی ان تیزاب پھینکنے والوں کا پتا چلے گا۔ اگو پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس ملک میں بلوچ خواتین اپنے اور اپنے پیاروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پہ سراپہ احتجاج ہیں تو یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف ان کے مسائل کو سنیں بلکہ ان کے تدارک کے لئے عملی اور ٹھوس اقدامات بھی کریں۔ اگر ان حالات میں بلوچ خواتین کی عزت اور جان کو خطرات لاحق ہیں تو اس کی حفاظت بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ بلوچ لڑکیوں کی تعلیمی بندش اور تیزاب پھینکنے جیسے واقعات کو نہ روکا گیا اور ایسے واقعات کا تسلسل جاری رہا تو اس کی سرا سر ذمہ دار وفاقی حکومت اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ پر بھی ہو گی۔ ویسے بھی بلوچستان میں سب سے ذیادہ ہائی الرٹ سیکیورٹی والے ڈسٹرکٹ پنجگور اور  بلوچستان کے سب سے ذیادہ ہائی سیکیورٹی الرٹ والے شہر کوئٹہ میں اور وہ بھی ایسے وقت میں پر جب بلوچستان کی تحریک زوروں پر ہے، ایسے واقعات کا جنم لینا وفاقی و صوبائی حکومتوں، ریاستی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔


زرجان بلوچ ایک ایسا نام جس سے پاکستان کی آدھی سے ذیادہ آبادی یقیناً ناواقف ہے۔
زرجان بلوچ ریاستی اداروں کے ہاتھوں اغواء ہونے والے بی ایس او آزاد کے چیئرمین ذاہد بلوچ کی بیوی ہے۔ زاہد بلوچ کو 13 مارچ 2014 کو کوئٹہ سے ایف سی کئی لوگوں کی موجودگی میں اٹھا کر لے گئی تھی۔  زرجان بلوچ اس وقت اپنے کمسن بیٹے قمبر کے ساتھ اسلام آباد پریس کلب کے بایر اپنے شوہر کی بازیابی کیلیے بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہیں۔
اس سے پہلے اپریل 2014 کو لطیف جوہر بھی زاہد بلوچ کی بازیابی کے لئے کراچی پریس کلب کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔ لطیف جوہر کی بھوک ہڑتال سول سوسائٹی اور دیگر اداروں نے اس وعدے پر ختم کروائی تھی کہ زاہد بلوچ کی بازیابی کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔ اور یہ انہیں جھوٹے وعدوں اور دعووں کا نتیجہ ہے کہ اب لطیف جوہر کے بعد زاہد بلوچ کی بیوی گونگے اور بہرے انصاف کے دعوے داروں کے سامنے اپنے شوہر کی بازیابی کی لئے بھوک ہڑتال کر رہی ہیں۔ شدید گرمی کے موسم میں اسلام آباد پریس کلب کے سامنے اپنے ننھے منے بچے کے ساتھ انصاف کی بھیک مانگ رہی ہے۔ لیکن اس عورت کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
انصاف کے ایوانوں اور حکمرانوں کی بے حسی ایک طرف، لیکن پاکستانی میڈیا بھی اس معاملے میں چپ کے قفل لگائے بیٹھا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں بنتِ حوا کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور ظلم و ستم پر میڈیا کی بریکنگ نیوز، تبصرے اور رپورٹوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن جب معاملہ ہو بلوچ عورت کے حقوق کی پامالی کا تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یا تو بلوچ عورت اس سسٹم کا حصہ نہیں، یا اس کے حقوق کی کوئی اہمیت نہیں، یا پھر شاید وہ عورت ہی نہیں۔ پاکستان کا کوئی ایک بھی ایسا نیوز چینل نہیں جس نے زرجان بلوچ کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو اپنی خبروں کا حصہ بنایا ہو۔
چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ اے آر وائی اور جنگ نیوز کی جنگ اور حامد میر کی بلوچوں کے حقوق پر لب کشائی کی سزا سے اسٹبلشمنٹ نے پاکستانی میڈیا کو ڈرا دھمکا کر قابو کر لیا اور میڈیا اپنی بقاء کی خاطر بلوچوں کے معاملے میں اندھا، گونگا اور بہرہ بن گیا۔ لیکن دوسری طرف بلوچستان کی صوبائی حکومت کی بے حسی پر سر شرم سے جھک جاتا ہے وہ بھی ایسی حکومت جس کا سربراہ خود ایک بلوچ ہو۔ وزیرِاعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ سے بہتر بلوچ معاشرے میں عورت کے مقام کو کون سمجھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ بھی گوارا نہیں کیا کہ زر جان بلوچ سے اظہارِ ہمدردی کرتے۔ کریمہ بلوچ کے بعد ڈاکٹر مالک نے ایک اور بلوچ بیٹی کو دھکے کھانے کے لئے تنہا چھوڑ دیا۔ معذرت کے ساتھ لیکن ڈاکٹر مالک بلوچ نے بلوچوں کے سر شرمندگی سے جھکا دیئے  اور بلوچی روایات و اقدار کو داغدار کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ اصولاَ بحیثیتِ بلوچ اور بحثیت وزیرِاعلیٰ  بلوچستان انہیں زرجان بلوچ کے پاس جانا چاہیئے تھا اور اسے چادر اور چاردیواری کا تحفظ واپس کرنا چاہیئے تھا لیکن ان کی بلوچی حمیت و غیرت بھی اقتدار کی بھینٹ چڑھ گئی۔

گو کہ آج کے پاکستان میں کسی بھی عورت کی عزت محفو

ظ نہیں مگر ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف میڈیا، سول سوسائٹی، سوموٹو نوٹس، حکومت کے فوری ایکشن۔۔۔ کچھ تو ہے۔ لیکن بلوچ عورت کے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں کے خلاف وہ اکیلی ہے۔ پاکستانی عورت اور بلوچ عورت کے درمیان واضح تفریق کا کیا مطلب نکالا جائے؟ زرینہ بلوچ، کریمہ بلوچ، زرجان بلوچ، بلوچ لڑکیوں کی تعلیم پر بندش اور اربابِ اختیار کی بند زبانیں اور پھر ایسے میں یہ امید رکھنا کہ بلوچ قوم پاکستان سے محبت کریں، پاک فوج ذندہ باد کے نعرے لگائیں، یا پھر بلوچ مائیں اپنے بچوں کو پاکستان بننے کی لازوال داستانیں سنا کر بڑا کریں تو یہ ہماری خام خیالی سے ذیادہ اور کچھ نہیں




ان مصیبتوں کا ذمہ دار کون؟

اگر آج ھم ایران اور پاکستان کے غلام ھونے کے بجائے ایک آزاد مملکت بلوچستان کے باشندہ ھوتے ھماری معاشی، سیاسی، اقتصادی اور اجتماعی زندگی اس حالت سے ھزاروں گناہ بھتر ھوتی اور ھماری مائیں ، بہنیں اور بچیاں اپنے روزانہ 10 لیٹر پینے کے پانی کے لئے 3 یا 4 گھنٹے صرف نہ کرتی۔





اسرائیلی جارحیت کے4روز ،750 حملے،بچوں سمیت 93فلسطینی شہید، سیکڑوں زخمی
غزہ پراسرائیل کی وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے ۔ چار روز میں شہید ہونے والوں کی تعداد 93 ہوگئی ہے۔غزہ کے مختلف علاقوں میں چار روز سے اسرائیلی افواج کے حملے جاری ہیں۔ گذرتے وقت کے ساتھ اسرائیلی جارحیت میں شدت آتی جارہی ہے۔آج صبح غزہ میں بمباری کی گئی اور ایک بار پھر نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا۔جمعرات کو بھی جنوبی شہر خان یونس سمیت کئی علاقوں میں بم برسائے گئے ۔ شہید ہونے میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔دو گھر بھی اسرائیلی بمباری کی زد میں آئے جہاں چار خواتین اور چار بچے لقمہ اجل بنے ۔فضائی حملوں کے ساتھ اسرائیلی حکومت غزہ میں ممکنہ زمینی کارروائی کی تیاری کررہی ہے ۔ اس سلسلے میں 20 ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کرلیا گیا ہے ۔نہتے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر عالمی برادری خاموش ہے اور امت مسلمہ بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔






شفقنا اردو (بین الاقوامی شیعہ خبر رساں ادارہ) - جنرل ضیاء الحق، ذوالفقار علی بھٹو کے بھروسے کا جرنیل تھا،۱۹۷۶ء میں جب اسے آرمی چیف بنایا گیا تو اس سے سنیئر سات جنرل گھر جا بیٹھے تھے اس لئے جب اپنی تقرری کے قریبا ایک سال بعد اس نے ملک میں مارشل لاء لگایا تو اسے بھٹو کا ہی ایک سیاسی ڈرامہ سمجھا گیا، پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی اکثریت کا یہی خیال تھا کہ جنرل ضیاء الحق ملک میں امن وامان قائم کرے گا اور الیکشن کرا دے گا،جس کے بعد پیپلز پارٹی پھر کامیاب ہو کر اقتدار میں آ جائے گی، عوامی سیلاب کو روکنا حزب اختلاف کے ستاروں کے بس کی بات نہیں تھی وہ مارشل لاء کی گود میں ہی کھیل سکتے تھے اور کھیلے..... اس وقت پاکستان جنگل نہیں بنا تھا، ابھی ایک زرعی ملک تھا اس لئے اصغرآلو ،فضل الرحمن گونگلو، اور پتہ نہیں کسے ٹماٹر کہہ کر چھیڑا جا تا تھا،اب تو شیر ، باندر اور چھچھلہپ کا زمانہ ہے،پاکستان میں ہر طرف خون ہی خون بہتا دکھائی دیتا ہے،






جنرل ضیاء الحق صاحب کے اس ملک پاکستان پرکئی احسان ہیں، انہوں نے اپنے جرنیلوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں روسیوں سے چھینی گئی کلشن کوفوں اور امریکہ سے ملنے والے سٹنگر میزائیل کی فروخت کا کاروبار کیا، ضیا الحق کے ان کارناموں سے کئی کتابیں بھری پڑی ہیں اورتازہ ترین گواہی پاکستان کے معلوم سیاستدان سلیم سیف اللہ کی والدہ کلثوم سیف اللہ کی کتاب" " میں ملتی ہے جس میں صاف صاف بیان کیا گیا ہے کہ جنرل ضیاء نے سٹنگر میزائیل ایران کو فروخت کر دئیے تھے جب امریکہ کو اس کا پتہ چلا اوراس کی ایک ٹیم اوجڑی کیمپ کے سٹور کا معائنہ کرنے کے لئے آنے لگی تو جنرل صیا الحق کے حکم پر ۱۰ اپریل ۱۹۸۸ء کو اس سٹور میں دھماکہ کر دیا گیا جس سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے تیرہ سو سے زائد شہری ہلاک ہو ئے ، کئی معذور ہو گئے اور برستے میزائیلوں کی افراتفری میں ان دونوں شہروں کی بیشمار لڑکیاں اغواء کر لی گئیں، جن کا آج تک پتہ نہیں چل سکا،میرا ایمان ہے کہ ضیا ء الحق سمیت اس جرم میں ملوث تمام جنرلوں کو ۱۷ اگست ۱۹۸۸ء کا بہاولپور کا عبرتناک ہوائی حادثہ حاکم اعلی کی عدالت میں لے گیا ہے جہاں ان کے لئے جہنم کی آگ پہلے سے تیار موجود تھی، پتہ نہیں میرا یہ سوچنا درست ہے یا نہیں کہ جنرل اسلم بیگ اور ان کے ہم خیال فوجی افسروں کو باری تعالی نے اس حادثے سے اس لئے بچا لیا تھا کہ وہ شرمناک اعمال میں ضیاء الحق کے شریک کار نہیں تھے،

آج آپ کو ملک بھر میں جو دھماکے اور خود کش حملے سنائی اور دکھائی دیتے ہیں وہ جنرل ضیاء الحق کی ہی دیں ہیں،جنرل ضیاء نے کلشن کوف کلچر کوعام کیا، لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پاکستان میں آباد کر کے سمگلنگ کے دروازے کھولے، ان افغانوں کا پاکستان اور افغانستان کے درمیان آنا جانا لگا رہتا تھا، یہ اسلحہ اور روسیوں سے چھینے ہوئے جدید جنگی آلات سمگل کرتے تھے ، یہ اسی سمگلنگ کا فیض ہے کہ پاک فوج کوشمالی علاقے میں ایسے گروہوں سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے،جن کے پاس جدید آلات ،بہت بہتر ہتھیار ہیں جو تربیت یافتہ اور اپنی دھن کے پکے ہیں، ان کے ساتھ ایک بے مقصد لڑائی میں ایک طرف ہمارے بہت قیمتی فوجی ضائع ہو رہے ہیں اور دوسری طرف ڈرون حملوں میں ہمارے پاکستانی بھائی ہلاک ہو رہے ہیں اور ہم.... پاکستانیوں کے خون سے امریکہ کو اوجڑی کیمپ کے ان سٹنگروں کا حساب دے رہے ہیں جو ملے تو پاکستان کو تھے مگر استعمال کہیں اور ہوئے، پھرجنرل ضیاالحق نے ا سلام کے نام پر کئی جنگجو تنظیمیں بنائیں، قتل و غارتگری کو عام کیا،ملک کے اندرشیعہ سنی فساد کی راہیں ہموار کیں اور دور دور تک دہشتگردی کو پھیلایا،ان کا ایک کرم سندھ میں ایم کیو ایم کا قیام بھی تھا،جس سے جماعت اسلامی تو کراچی سے فارغ ہو گئی تھی، پیپلز پارٹی کو بھی اس کے اپنے قائد بھٹو کے صوبے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ،مگر سب سے بڑا نزلہ سندھ میں آباد پنجابیوں پر گرا، جن کے متعلق پیارے بھائی کا فرمان تھا کہ ’’ ان حرامیوں کی لاشیں بھی یہاں دفن نہیں کرنے دی جائیں گی‘‘ ......وہ پنجابی خوش قسمت تھے جو اس دور کے سندھ میں اپنی جائیدادیں اونے پونے بیچ کر نکل آئے ، کئی تو ایسے تھے جنہیں سب کچھ چھوڑ کے آنا پڑا،

فلسطینیوں کا قیل عام

جنرل ضیاء الحق پربہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جائے گا، ان پر لکھی گئی چند کتابیں کے نام درج کر دئیے ہیں، انہیں دیکھیں.... پہلے پڑھنا، سمجھنا اور پھر قلم اٹھانا چاہئے.....اب اگر کسی کی یہ دلیل ہے کہ اسے ذوالفقار علی بھٹواچھا نہیں لگتا تھا اس لئے وہ ضیاء کا حامی ہے تو یہ دلیل درست نہیں.....اور اگر میں یہ کہوں کہ ضیاء نے اُس بھٹو کے ساتھ غداری کی تھی جو میرا لیڈر تھا تو یہ دلیل بھی ضیاء پر تنقید اور اس کی تذلیل کی کوئی معقول وجہ نہیں بنتی......اس پر لعنت کی وجہ بنتا ہے وہ کردار جو اُس نے ادا کیا.....میری گرفتاری ۱۶ فروری ۱۹۷۸ء کومیرے ۲۷ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہوئی تھی،لاہور،کوئٹہ،پشاور اور راولپنڈی سے سات سات دوستوں کو ایک سال قید بامشقت ہوئی، ہم میں سے جو رہائی کے بعدملک سے باہر نہیں چلے گئے انہوں نے گیارہ سال بڑی مشکل کے گزارے ہیں، لیکن یہ صرف میرا اور میرے ان ساتھیوں کاذاتی مسلہ ہے اور اللہ گواہ ہے کہ پچھلے ۳۵ برسوں میں میں نے جنرل ضیا الحق کو کبھی آج کی طرح برا نہیں کہا ان کا نام ہمیشہ ادب سے لیا ہے،آج معاملہ مختلف ہو گیا ہے،

ضیا الحق برطانوی فوج میں افسر تھے اور دوسری جنگ عظیم میں لڑے تھے، پاکستان بنا تو وہ پاک فوج میں شامل ہو گئے،۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۰ء کی جنگوں میں بھارت کے خلاف لڑے، اور جب ان کی سربراہی میں ایک تربیتی مشن اردن بھیجا گیا تو آپ برگیڈئیر تھے، اس زمانے میں اردن اور فلسطین کا وہی حساب تھا جو پاکستان اور کشمیر کا ہے، آزاد کشمیر کی طرح اردن نے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا تھا، دریائے اردن کے مشرق میں ۴۰ ہزار فلسطینی مہاجرتھے ، یہ اردن کی آبادی کا ایک تہائی بنتے تھے دریائے اردن کے مغربی کنارے میں بھی اتنے ہی فلسطینی تھے ،فلسطینیوں نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کو اپنی آزادی کا بیس کیمپ بنا یا ہوا تھا، یہاں سے فلسطینیوں کو تربیت دے کر مقبوضہ علاقے میں اسرائیلیوں کے خلاف چھاپہ مار سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے بھیجا جاتا تھا، اردن نے جب یہ علاقہ اپنے قبضے میں لیا تو فلسطینیوں نے اسے اپی کمزوری نہیں بلکہ طاقت میں اضافہ سمجھا،مسلمان بھائی آ گئے تھے ناں، مقبول بٹ شہید نے آزاد کشمیر کو بیس کیمپ بنا کے یہی عمل شروع کرنا چاہا تھا، اس طرف ہم بعد میں آئیں گے،

شاہ حسین مرحوم کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ کہیں فلسطینی دریائے اردن کے مغربی کنارے کو آزاد فلسطینی ریاست نہ بنالیں لیکن ان کے لئے اس سے بڑی مشکل یہ تھی کہ ہماری طرح وہ بھی سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے اتحادی تھے، امریکہ کی ترجیح اسرائیل، اس کی بقا اور مشرق وسطی میں اس کی بالا دستی تھی، اس طرح کی صورتحال میں ہم نے جو کردار القاعدہ کو ختم کرنے کے لئے ادا کیا وہی کردار اردن کو فلسطینیوں کو اکھاڑنے کے لئے ادا کرنا پڑا، ۱۵ ستمبر ۱۹۷۰ء کو برگیڈئیر ضیا الحق کی در پردہ قیادت میں اردنی فوج نے فلسطینیوں پر حملہ کیا اور انہیں اردن سے باہر کر دیا،اردن فلسطینیوں کے دباؤ میں سے نکل آیا اوراسرائیل پر سے بڑا خطرہ ٹل گیا، بالکل اسی طرح جس طرح وسط ایشاء کے مسلم ممالک یہ محسوس کر رہے ہیں کہ وہ القاعدہ کے دباؤ میں آنے سے بچ گئے ہیں اور اسرائیل پر سے ایک اور خطرہ ٹل گیا ہے،

میں جب جیل میں تھا تو وہاں میری ملاقات دوفلسطینیوں سے ہوئی، ان کے شناختی نام ہاشم اور عبداللہ تھے، انہوں نے پاکستان میں شامی سفارتخانے پر حملہ کر کے شامی سفیر کوقتل کر دیا تھا، ان سے اکثر بات چیت ہوتی تھی، انہوں نے مجھے ابو مجاہد کی باتیں سنائیں..... ابو مجاہد، فلسطینی بچوں کو گوریلا جنگ کی تربیت دیا کرتے تھے، پی ایل او کی طرف سے یہ ان کی ڈیوٹی تھی، ایک دن ایک بچے نے تجسس میں دستی بم کی پن نکال دی، ابو مجاہد کی جب نظر پڑی تو وقت بہت کم تھا انہوں نے بچوں کو بھاگنے کا حکم دیا اور خود کو اس دستی بم پر گر لیا، بم پھٹا، ان کا ایک بازو ایک ٹانگ اور ایک آنکھ صائع ہو گئی، وہ بچ گئے اور باقی ماندہ جسم کو لے کر بچوں کو پہلے کی طرح تربیت دینے لگے

اردن میں۱۵ستمبر۱۹۷۰ء کو جوملٹری ایکشن شروع ہوا وہ جولائی ۱۹۷۱ء تک جاری رہا،جیل میں مجھ سے ملنے والے فلسطینی اسے بلیک ستمبر کے نام سے یاد کرتے تھے، انہوں نے بتایا کہ ابومجاہد کی منتیں کی گئیں کہ وہ اردن سے نکل چلیں مگر وہ نہیں مانے ...یاسر عرفات طیارہ لے کر پہنچے ، انہوں نے انہیں منانے کی بہت کوشش کی ، مگر انہوں نے یہ کہہ کے انکار کر دیا کہ’’ میں اپنے بچوں (جہادی فلسطینیوں)کو موت کے منہ میں اکیلے نہیں چھوڑ سکتا ان کے ساتھ مل کر لڑوں گا، شہادت بہت اعلی منصب ہے، اس کی تمنا کرتا ہوں‘‘.... یہ قتل عام تھا، فلسطینیوں پر اچانک ٹینک چڑھا دئیے گئے ، فلسطینی جنگجو تھے ، اس وقت ان کے پاس کشمیریوں کی طرح اپنا کوئی ملک نہیں تھا وہ کہیں اپنا کوئی جنگی مرکز قائم نہیں کر سکتے تھے وہ مقبوضہ فلسطین اور اردن کے درمیان پھنس گئے تھے ، اس موقع پر اسرائیلی بھی ان پر حملہ کر سکتے تھے وہ دو طرف سے نرغے میں آ سکتے تھے، مگر وہ اس سے بے نیاز آزادی.....فلسطینی قوم کی آزادی کے لئے لڑتے ہوئے شہید ہو رہے تھے،کشمیر میں ہندووں اور مسلمانوں کی جو تفریق موجود ہے، فلسطین میں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود ان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی کوئی تفریق نہیں تھی، مسلمان اور عیسائی شانہ بہ شانہ لڑے،انہوں نے فوجی پیش قدمی کو روکے رکھا، اپنے ساتھیوں کو اردن سے باہر نکالتے رہے اوراردن کی گلیوں اور بازاروں میں لڑتے ہوئے دس ہزار کے لگ بھگ شہید ہوگئے،

جیل کے میرے ساتھی فلسطینیوں کا کہنا تھا کہ ’’ہم ضیاء الحق کو کبھی معاف نہیں کر سکتے، ابو مجاہد کو اسی نے شہید کیا تھا،فلسطینیوں کے لئے ذوالفقار علی بھٹو ہی پاکستان کی پہچان ہے‘‘......ضیاء الحق سے مغرب پہلے بھی آشنا تھا مگر فلسطینیوں کے خلاف ایکشن نے اسے ان کے لئے بہت اہم بنا دیا،ادھر ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، صدر سوکارنو، حافظ الاسداور معمر قذافی کے ساتھ مل کر امریکہ اور سو ویت یونین کے بلاکوں سے نکل کر تیسرا بلاک بنانے، اسلامی بینک قائم کرنے اور مسلمانوں کی سائنسی ترقی کو ایٹم بم بنانے سے شروع کرنے کی جو تیاریاں کر رہے تھے وہ امریکہ اور سوویت یونین ، دونوں کے لئے قابل قبول نہیں تھی، اس سارے منصوبے میں مرکزی حیثیت ذوالفقار علی بھٹو کی تھی اوران تمام سرگرمیوں کا مرکز پاکستان نے بننا تھا، اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو مسلمان ملکوں کی حالت ایسی نہ ہوتی جیسی آج ہے اور پاکستانیوں کاشمار امریکہ کے تابعداروں میں نہ ہوتا،

یہ ہے ضیاء کا وہ ظلم ، جو صرف مجھ پر نہیں اس نے پوری مسلم امہ پر کیا ہے...... کچھ لوگ اسے اس لئے مرد حق کہتے ہیں کہ وہ نماز پڑھتا تھا..... نماز اول تو ہم اپنی بخشش اور اللہ پاک کی تابعداری کے اظہار کے لئے پڑھتے ہیں...... مسلمانوں کا، ہندووں کا، عیسائیوں کا، یہودیوں کا ناحق خون بہانے کے لئے نہیں پڑھتے ، اگر ہم نماز پڑھیں اور اللہ کی بے گناہ مخلوق کا خون بہانے لگیں تو ہم سچ سے ہٹ کے جھوٹ میں داخل ہو جاتے ہیں اور جھوٹے پر تو لعنتیں بے شمار ہیں،...... جھوٹے پہ لعنت سچے پر رحمت ، یہ نعرہ نہیں ایک حقتقت ہے اور ضیاء مجسم جھوٹ تھا، .......ان سب باتوں کو تولئیے اور سوچئے ،آج ہم کس منزل پر ہیں؟ ......عرض کیا ہے ؂ موت ہاتھ میں لئے ہم تم زندگی کی صدا لگاتے ہیں

اور ہاں دوستو تمغات سینے پر سجانے کے لئے ہوتے ہیں، خیرات مانگنے کے لئے نہیں، میری جیل یاترا میرا ،اعزاز، میرا تمغہ ہے، یہ یاترا ملتِ اسلامیہ کے حقوق و انصاف کے لئے تھی، جسے میں نے نہ کسی کو بیچا ہے اور نہ بیچوں گا،جس کی مجھے نہ ستائش قبول ہے ، نہ انعام ،میرے لئے میرا اللہ کافی ہے،وہ میرا نگہبان اور میرا گواہ ہے، شکریہ

تحریر ؛ظہیر جاوید
شفقنا اردو
A Beautiful Date Farm in Baluchistan.

During July and August, when the date palms are in full bloom, dates growers, due to lack of modern scientific and technological facilities, use 'spiritual' methods as preventive measures to save crop from monsoon rains. "Taweez" (amulet) hanging by date trees is a common sight in dates growing areas in Sindh and Balochistan. He said that annual production of dates in Pakistan is estimated at around 600,000 tons, of which only 100,000 tons is exported and the rest is either consumed locally, or perishes for want of different facilities.














جسمانی طو رپر شہید میر عبدالغفار بلوچستان سے محبت کرنے والوں اور قید آزادی کرنے والے ساتھیوں سے الگ ہوگئے لیکن ان کا فکر شن اور فلسفہ ہمیشہ لوگوں کے دلوں پر زندہ ررہے گا ۔ہمشیرہ شہید میر عبدالغفار لانگو01جولائی2014

(ہمگام نیوز)ہمشیرہ شہید میر عبدالغفار لانگو کی جاری کردہ ایک بیان کے مطابق گوریلا لیڈر شہید میر عبدالغفار لانگو کی یوم شہادت کی مناسبت سے اس کی طویل جدوجہد پر اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس کی روح کی تسکین اور ایصال ثواب کیلئے دعا کی گئی اور خواتین کے ایک وفد نے اس کے قبر پر بلوچستان کا پرچم چڑھایا ۔یاد رہے کہ میر شہید عبدالغفار لانگو جہد آزادی کے علمبردار اور ایک جرات مند سپاہی تھی اور وہ بلوچستان کے مسئلے پر سخت گیر موقف رکھتے تھے اسی جدوجہد میں اس نے قید وبند کی سخٹ اور طویل ترین صعوبتیں برادشت ککی اسے مختلف ٹارچر سیلوں اور اذیت خانوں میں سخت اذیتیں دی گئی اور لالچ دینے کا بھی سہارا لیا گیا تاکہ وہ اپنے موقف سے ہٹ جائیں لیکن اس کی پاتے استقافت پر کسی قسم کی لرزش نہ آئی تمام حربوں کو استعمال کرنے کے ناکامی کے بعد حکمرانوں نے یکم جولائی 2011بروز جمعہ کو اس کو شہید کرکے اس کی لاش کو گدانی کراس پر پھینک دی اس کی شہادت بلوچستان میں جہد آزادی کرنے والوں کیلئے کامیابی اور حکمرانوں کی ناکامی کا نوید تسلیم آئے گا جسمانی طو رپر شہید میر عبدالغفار بلوچستان سے محبت کرنے والوں اور قید آزادی کرنے والے ساتھیوں سے الگ ہوگئے لیکن ان کا فکر شن اور فلسفہ ہمیشہ لوگوں کے دلوں پر زندہ ررہے گا ۔










چلتن کے دامن

 میں ......
زامران بلوچ

ایک ایسے جدوجهد کا رهبر جس راہ میں کامیابی کی صورت میں عظیم لوگ ماو ، هوچی اور منڈیلا بن جاتے هیں اور ناکامی کی صورت میں خیر بخش مری .....
مگر بقول بابا مری کے هم جنگ هارے نهیں بلکہ جاری هے.

بلوچوں کے عظیم قومی لیڈر بزرگ شخصیت رهبر آزادی خیر بخش مری کهتے هیں کہ آج بلوچ قوم میں جو بیداری دیکه رهے هوں یہی میرا حاصل حصول تها .

تو بے شک بابا اپنے مقصد میں کامیاب هوکر راہ حق کا مسافر بن گیا اور کوہ چلتن کے دامن میں آسودہ خاک هوگیا....

جب عظیم بابا کی موت کا خبر گردش کررها تها اور اگلے روز بلوچ فرزندوں نے لاش کندهے میں اٹهایا هوا تها اور ابهی تک بابا سپرد گلزمین نہیں کیا گیا تها کہ بلوچ سیاست کے تنگ نظر لوگ بابا کی لاش پر سیاست کررهے تهے.

یقینا ان پر لعنت کے سوا اور کچه نہیں کرسکتے.

مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیان هے کہ بابا کی فکر کا اصل وارث وہ هیں جو اسکی لاش کو دشمن سے چهڑا کر شهدا کی پہلو میں سپرد ء گلزمیں کرنے میں کامیاب هوئے.

ماما قدیر میں تیری همت کو سلام پیش کرتا هوں.
عین اسی موقع پر سنگت خیر بیار مری ، ڈاکڑ اللہ نزر کے پریس ریلز سوشل میڈیا اور اخبارات کے زینت بن گئے کہ دونوں کے پریس ریلز میں اتحاد اور یکجہتی کا لفظ موجود تها مگر شاید یہ ایک روایاتی بیان کے سوا اور کچه نہیں ....
بلوچ نوجوان زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کریں ،
بلکہ اپنا بابا کو اپنے اندر سے ڈونڈ لائیں .
میں پهر کهتا هوں کہ ماما تجهے سلام
نواب خیربخش مری ایک قبائلی رہنما نہیں بلکہ ایک قومی رہنما تھے، ایک قبیلہ نہیں بلکہ ایک قوم کو سوگوار چھوڑا۔باباکے سیاسی وارث ان کے لاکھوں نظریاتی ساتھی ہیں گوکہ بلوچ قومی تحریک میں بابائے بلوچ کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی لیکن چونکہ جس طرح انہوں نے بلوچ نوجوانوں کی سیاسی، فکری اور نظریاتی تربیت کی وہ ان کے اس مشن کو جاری رکھنے کی بھر پور اہلیت رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برا ئے انسانی حقوق میں بلوچ قومی نمائند مہران بلوچ


 اقوام متحدہ کے ادارہ برا ئے انسانی حقوق میں بلوچ قومی نمائندہ مہران بلوچ نے کہا کہ بابائے بلوچ نواب خیر بخش مری کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس خلا کو پر نہیں کیا جاسکتاوہ نہ صرف ایک بہترین باپ تھے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ ایک اعلیٰ رہبر اور عظیم انسان تھے انہوں نے اپنی ساری عمر انصاف، برابری، پر قائم معاشرے کے قیام اور غلامی سے نفرت میں گذاری اور بلوچ قوم کے بہتر و روشن مستقبل اور بلوچ گلزمین کی آزادی کی جدوجہد میں برسرپیکار رہے جینیوا سے جاری کئے گئے اپنے بیان میں نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے نے کہا کہ میرے والد نواب خیر بخش مری ہمیشہ اپنے بارے میں کم لیکن بلوچ قوم و سرزمین کی آذادی کے لیے زیادہ فکر مند رہتے تھے۔ ان کی ہمیشہ سے یہی خواہش تھی کہ بلوچ قوم اپنی منزل پالے اور قبضہ گیروں سے اپنی دھرتی کو آزاد کرائے مہران بلوچ نے کہا کہ نواب خیربخش مری ایک قبائلی رہنما نہیں بلکہ ایک قومی رہنما تھے، اسی لیے انہوں نے ایک قبیلہ نہیں بلکہ ایک قوم کو سوگوار چھوڑا۔ خیربخش مری کے سیاسی وارث ان کے لاکھوں نظریاتی ساتھی ہیں گوکہ بلوچ قومی تحریک میں بابائے بلوچ کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی لیکن چونکہ جس طرح انہوں نے بلوچ نوجوانوں کی سیاسی، فکری اور نظریاتی تربیت کی وہ ان کے اس مشن کو جاری رکھنے کی بھر پور اہلیت رکھتے ہیں۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ نواب خیر بخش مری کے ادھورے خواب کو ہم ضرور پورا کریں گے اور ان کے اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ ہمیں دشمن کو یہ باور کرانا ہوگا کہ نواب مری کو تو ہم سے چھین لیا لیکن ان کی غلامی سے نفرت اور بلوچ وطن کی آزادی کی دی ہوئی فکری و نظریاتی تعلیمات ہم سے نہیں چھین سکتے۔ ہمیں بابائے بلوچ کی دی ہوئی تعلیمات اور ان کی بتائے ہوئے راستے پر عمل پیرا ہوکر دشمن کو بلوچ سرزمین چھوڑنے پر مجبور کرنا ہوگامہران بلوچ نے کہا کہ میں بلوچ قوم کو یہ بتاتا چلوں کہ نواب مری کا جسد خاکی پاکستانی حکام کی تحویل میں ہے، ان کی آخری رسومات کے لیے جو بھی انتظامات کیے جا رہے ہیں اس سے ہم بلکل لا علم ہیں سرکاری حکام کی طرف سے بلوچ رہنما کی آخری رسومات میں نواب خیر بخش مری کے خانداں کی رضا مندی شامل نہیں ہے

خیر بخش مری بلوچ سیاست کا وہ تہہ دار کردار تھے کہ آخری ساعت تک ان کو کوئی سمجھ نہ پایا۔ وہ اکثر، کسی سے گفتگو میں، کوئی جملہ ادا کرتے، جو ایک سطر ہی ہوتا لیکن اس کے پس منظر میں ایک پیچیدہ سی کہانی گھومتی رہتی تھی۔

وہ ابن الوقت سیاست دانوں پر ہمیشہ زیر لب مسکراتے رہے۔ جیسے ہم اسکرین پر کسی کو اچھلتے کودتے دیکھتے ہیں اور اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ بےچارہ منڈلی میں اپنے حصے کا ناٹک دکھارہا ہے۔

کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی سوفٹ و ہارڈ فائل میں خیابانِ سحر کے نام سے ایک سڑک کی انٹری ہوئی ہے جس کے ایک کوچے میں اس نواب نے بہت سا وقت گزارا۔

وہ بات کرتے ہوئے طویل بیزار کُن جملے نہیں بولتے تھے، جو سیاستدانوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ ان کے جملوں کی ساخت اس قدر چھوٹی ہوتی تھی کہ سننے والا درمیان میں، دو تین جملے بول کر، بات چیت میں اپنا حصہ بھی ڈال سکتا تھا۔

وہ بات چیت میں دور دراز کی کہانیاں سناتے اور اپنے ارد گرد کے حالات کا ناک نقشہ سمجھاتے تھے۔ پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے زیرک صحافی ہمیشہ سوچتے رہے کہ یہ نواب کس خمیر کے بنے تھے کہ سمجھوتوں سے ہمیشہ دور رہے۔

نواب خیر بخش مری جدید بلوچ نیشنلزم کا فکری منبع تھے۔

"۔۔۔ دراز قد، خوش طبع، فہم و فراست کا مالک اور گمراہ کن حد تک حلیم الطبع مری ایک خوش بیان مقرر اور قوم پرست تحریک کا نقیب ہے۔ تاہم اسے روزمرہ کی سیاسی سرگرمیوں اور مشکلات میں اکثر اوقات متذبذب اور بعض اوقات سادہ لوح تک پایا گیا ہے وہ بین الاقوامی دانشورانہ ذوق کا مالک ہے۔ تاہم اس کا طرز زندگی ہر لحاظ سے بلوچ ہے۔"

(امریکی صحافی سلیگ ہیریسن، "ان افغانستانز شیڈو: بلوچ نیشنلزم ص 55)

نواب اکبر بگٹی کے برعکس، نواب خیر بخش نے اسلام آباد پر --چند مستثنیات کے علاوہ-- کبھی اعتماد نہیں کیا جبکہ پاکستانی ہیئت حاکمہ، مقتدرہ نے ہمیشہ ان کو، ان کے قدآور سیاسی دوستوں، نواب اکبر بگٹی و سردار عطاءاللہ مینگل، کے درمیان، سب سے خطرناک خیال کیا۔

گزرے سال کےعام انتخابات سے چند ماہ قبل پاکستانی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف ایک کتاب لکھ ڈالی۔ کتاب کیا تھی، میڈیا کے زور پر زبان زد عام و خاص ہوکر غائب ہوگئی۔ اپنی کتاب "یہ خاموشی کہاں تک؟" میں وہ لکھتے ہیں؛

"جون 2002 میں بلوچستان سے متعلق آئی ایس آئی سے ایک رپورٹ ملی کہ خیر بخش مری کو ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را پیسے دے رہی ہے۔ بگٹی صاحب نے پہلے ہی خاصے مسائل پیدا کررکھے تھے اور گیس کی کھوج شروع نہیں کرنے دیتے تھے۔ اس رپورٹ میں اس سلسلے کی بھی تفصیلات تھیں۔ پھر دو دن بعد بتایا گیا کہ خیر بخش مری نے اپنے قبیلے کے 200 لوگ بگٹی صاحب کی حفاظت کیلئے فراہم کئے ہیں۔ بگٹی صاحب کیساتھ یہ مسائل چلتے رہے۔ ہمیں خبریں ملتی رہتیں کہ بلوچستان سے کچھ اور اہم لوگ بھی افغانستان جاتے اور وہاں سے انہیں امریکہ کی طرف سے پیسے دیئے جاتے۔" -- ص 258

وہ خاموش طبع تھے۔ میڈیا پر زیادہ اعتبار نہیں کرتے تھے۔ ان کو دوسروں کی گفتگو کے سیاق و سباق سے بریدہ مطالب نکالنے کا الزام دیتے رہے۔ وہ حُسن و دلکشی کا ایک تراشیدہ نمونہ تھے۔ ستواں ناک کے نیچے دہان بالکل بچوں جیسا، جہاں سے نپے تلے سیاسی الفاظ نکلتے تھے۔

گفتگو میں کہیں کہیں اپنے سننے والے کو بھی شریک کرتے۔ فکرمندی سے سوچتے ہوئے، وہ آپ پر کوئی گہرے معنی واضح کرنے کیلئے، کوئی لفظ پوچھتے۔

وہ ہمیشہ اپنے الفاظ پورے یقین کیساتھ ادا کرتے رہے، جیسے تاریخ کے بڑے کردار وقت آنے پر اپنے فلسفے کی جیت پر یقین رکھتے تھے۔ انہیں سنتے ہوئے، سننے والے کو گمان گزرتا تھا، آپ ایک ایسے شخص کے سامنے بیٹھے ہیں جو جنگ کے میدان سے کچھ دیر کیلئے آپ کو کچھ کہنے آیا ہو۔ ان کی گفتگو میں لفظ "دشمن" کی گونج بار بار سنائی دیتی تھی۔

محدود قوت کیساتھ، بڑی طاقت سے کیسے لڑا جاتا ہے؟

اکثر خیال کیا جاتا ہے نواب خیر بخش مری نے مرغوں کی لڑائی سے یہ ہنر سیکھا اور اسے سیاست کے میدان میں آزمایا۔ یہ نیم سچ ہوسکتا ہے، سراسر درست نہیں۔ وہ مجھے چیونٹی کی جنگ و مرگ کے فلسفے پر یقین رکھنے والے صابر سیاستدان لگے۔ زندہ و مردہ جسم کیخلاف گروہ کی صورت میں یورش کرنا۔ کسی ایک مرکزیت کے تحت سالہا سال معمولی کامیابیاں حاصل کرنا تاآنکہ وہ زندہ یا مردہ جسم نیست و نابود ہوجائے۔ چیونٹیوں کو ہم روز یہ عمل کرتا دیکھتے ہیں۔

70ء کی دہائی میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ قبائل کو سیاسی تنظیم کے مضبوط نظم و ضبط کے ڈھانچے کے مقابلے میں زیادہ موثر و حاوی تصور کرتے رہے۔ ممکن ہے اس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہوں۔ وہ اپنے قبیلے --مری-- کی بلوچ نیشنلزم کے مسلح ڈھانچے کے ہراول دستے کے طور پر تربیت کرتے رہے۔

"کہنے کو مری سب سے بڑا بلوچ قبیلہ ہیں لیکن سب سے زیادہ پراسرار بھی اسی قبیلے کو بناکر پیش کیا گیا ہے۔ جتنا بڑا قبیلہ ہے اتنی ہی کم تحقیق ہوئی ہے۔ اس تحقیقی کمیابی کے نتیجے میں طرح طرح کے قصے کہانیاں مشہور ہیں۔ کوئی انہیں لٹیرا سمجھتا ہے، کوئی نپٹ جاہل، کوئی انہیں پہاڑوں کے اندر الگ تھلگ رہنے والی مخلوق گردانتا ہے تو کوئی پتھر کے دور کی تہذیب کا نمائندہ کہتا ہے۔"

"بات یہ ہے کہ جب کوئی قبیلہ کسی بھی طرح کی سماجی و سیاسی سودے بازی کیلئے آمادہ نہ ہو، اجنبیوں سے گھلنے ملنے میں زیادہ دلچسپی نہ رکھتا ہو، طبعاً اتنا آزاد منش ہو کہ دوسروں کے تصور ترقی کو بھی ہضم نہ کرسکے، کسی اجتماعی سیاسی بہاؤ کا حصہ بننے پر تیار نہ ہو، جب وہ ہر اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اور ہر اسٹیبلشمنٹ اس کے بارے میں مشکوک ہو تو پھر وہی ہوتا ہے جو تاریخ مسلسل مری قبیلے کیساتھ کرتی آرہی ہے۔ -- سیلاب ڈائری، وسعت اللہ خان، ص 211

"تاریخ نے مریوں کو غالباً اس لیے راندہ درگاہ کرنے کی کوشش کی کہ مورخ زیادہ تر سرکاری درباری لوگ گزرے ہیں۔ مریوں پر جب بھی کسی نے خود کو جبراً تھوپنے کی کوشش کی، انہوں نے مزاحمت کی اور مزاحمت کرنے والوں کو کوئی بھی حکمراں یا درباری مورخ پسند نہیں کرتا۔" -- سیلاب ڈائری، وسعت اللہ خان،














Google+