عادل بلوچ
جب کوئی انسان منافق ہوجائے تو اُس کیلئے دن کو رات کہنا بڑی بات نہیں کیونکہ منافق کیلئے اگر کوئی شے اہمیت رکھتی ہے تو وہ صرف اپنے ذات کی نشو و نما ہے ۔خوف، لالچ اور خوشامدی منافقت کی عکاسی کرتے ہیں ،جیسا کہ نفسیات دان مریض کی روز مرہ کی معمولات سے ہی مرض کی نشاندی کرتے ہیں اسی طرح خوف ، لالچ اور خوشامدی سے منافقت کی بہترین عکاسی ہوتی ہے ۔ منافق انسان کینسر کی طرح پھیل کر معاشرے کو منافقت کی بھینٹ چڑھاتی ہے ۔ جس معاشرے میں آج ہم رہ رہے ہیں اس کو منافقت مکمل گھیر چکی ہے ۔ میں نے ہمیشہ اپنے نزدیک لوگوں کو ’’مُلاؤں ، مذہبی انتاپسندوں ، تنگ نظروں کو منافق کہتے سُنا ہے(وہ خود بھی اُس جُرم میں شریک ہیں) لیکن یہ لبرل ، سیکولر ، سوشلسٹ ، نیشنلسٹ منافقوں کا کیا ہوگا؟ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے مُلاؤں کے پاس توگڈ طالبان اور بیڈ طالبان کا تصور موجود ہے ، کیا اب یہ نام نہاد سوشلسٹ ، نیشنلسٹ اور لبرلوں کے پاس بھی گڈ مظلوم ، بیڈ مظلوم یا گڈ ظالم یا بیڈ ظالم کے تصور نے جنم لیا ہے ؟طیارہ حادثے میں سب کے DPسیاہ ہوجاتے ہیں ، فرانس حملے میں سب کے اندر کا نام نہاد سوشلزم ، لبرل ازم اور نیشنلزم باہر نکل کر کراچی، کوئٹہ اسلام آباد پریس کلبوں میں موم بتیاں جلانے پہنچ جاتے ہیں ۔ لیکن ماسٹر بیت اللہ جیسے درویش انسان کیلئے کیوں کوئی لبرل باہر نکلے؟ کیا ماسٹر بیت اللہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ تھا؟ ماسٹر بیت اللہ جیسا معصوم انسان اس معاشرے میں خودداری دکھا رہا تھا جس کے سیدے معنی موت ہے ، ابھی بھلا یہاں کوئی خوددار ہوسکتا ہے ؟ بھائی ماسٹر بیت اللہ کو کیا ضرورت تھی دازن سے تمپ پیدل جاکر اسکول میں بچوں کو پڑھانے کیلئے ؟ ماسٹر بیت اللہ کو کس نے کہا تھا کہ وہ اُن کسانوں اور مزدوروں کے بچوں کے ساتھ مخلص ہوجائے ان کو پڑھائے ؟ جس طرح ہزاروں گھوسٹ اساتذہ کراچی و کوئٹہ میں آسائش و آرام کو زندگی گزار رہے ہیں تو اس طرح ماسٹر بھی گزار سکتا تھا ۔لیکن کیا کرے ماسٹر بیچارہ سادہ لوح بلوچ تھا ۔
میرے لبرل ، سیکولر ، سوشلسٹ ، نیشنلسٹ منافق دوستوں ! آج صبح سوشل میڈیا میں نیوز آنکھوں کے سامنے گزری جس میں بتارہا تھا بلوچستان کے علاقے مند میں پانچ دہشتگرد مقابلے میں مارے گئے ۔ بلوچستان میں تین تین سال قبل اغوہ ہونے والوں کا مقابلے میں قتل ہونا کوئی دل دہلادینے والا واقعہ نہیں ہوتے ۔ دوسرے منافقوں کی طرح میں نے بھی خبر پڑھنے کے بعد فیس بک کو لاگ آوٹ کرکے اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہوگیا ۔ کیونکہ اس میں کوئی بڑی بات تھوڑی ہے بلوچستان میں اب تو اس طرح ماسٹر جیسے درویش انسانوں کا قتل عام معمول کی بات ہے اب میرا جیسا منافق کس کس کیلئے موم بتیاں جلائے؟ دیکھو بھائی ایک تو یہ بلوچستان کا معاملہ ہے ، دوسرا ملکی سلامتی کے اداروں نے کہا ہے کہ یہ دہشتگرد تھے اس معاملے ہمارے جیسے لوگوں کا خاموش رہنے میں ہی عافیت ہے۔ دیکھے بھائی اگر ماسٹر بیت اللہ توہین رسالت کے الزام میں مارے جاتے تو ہم سوشل میڈیا کو سر میں اُٹھاتے ، ٹیوٹر میں ٹرینڈ کرواتے ، پریس کلبوں کے سامنے موم بتیاں جلاتے ، فیس بک ڈی پی تبدیل کرتے اس طرح کرنے میں سانپ بھی مرجاتی ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی ہے ۔بھائی ماسٹر بیت اللہ کی بد نصیبی تو دیکھ مارا بھی بلوچستان جیسے جنگل میں گیا ، اگر یہ سکینڈری اسکول کا ٹیچر پنجاب ، سندھ اور پختونخوامیں مارا جاتا تو ہم اپنے سوشلسٹوں کے دس بارہ آن لائن نیوز میں اس تشہیر کرواتے ، اپنے لبرل دوستوں سے آرٹیکل لکھواتے ، مین اسٹریم میڈیا میں بیٹھے اپنے سیکولر دوستو ں سے اس واقعہ کو بریکنگ نیوز کرواتے  لیکن بھائی یہ بلوچستان کا معاملہ ہے ۔ دیکھوں بھائی ہمارے آئن لائن نیوز کے اس طرح کا رسک کیسے لے سکتے ہیں ؟ اگر بادل نخواستہ آئن لائن نیوز بند ہوگئی تو ان کے بال بچوں کا کیا ہوگا؟ دیکھے بھائی ہمارے آرٹیکل لکھنے والے دوستوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ، اس لیئے بلوچستان کے معاملے میں ہم اجتناب برتتے ہیں ۔ ہماری بھی کچھ مجبوریاں ہیں ، آپ ہماری مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ مجھ سمیت میرے تمام لبرل ، سوشلسٹ ، نیشلسٹ دوستوں کو بخوبی علم ہے کہ 17جون 2015 ء کو تمپ سکینڈری اسکول سے صبح سویرے ماسٹر بیت اللہ غائب ہوئے ۔ بھائی یقین جانیے اگر ماسٹر سلیبرٹی ہوتا تو ہم اس واقع پر کچھ کرتے کیونکہ سلیبرٹیزکا معاملہ خود سوشل میڈیا میں اوچھل جاتا تو وہاں ہمیں کوئی مشکلات پیش نہیں آتی ہوگی ۔کامریڈ لینن کے اس قول پر ہمارا ایمان ہے کہ ظلم کے خاتمے کیلئے خونی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے ، تشدد کا جواب تشدد سے دیا جاتا ہے ، چے گیورا سے ہم مکمل اتفاق کرتے ہیں ہے کہ ظلم کے خلاف ہر بولنے والے ہمارے کاروان کے مسافر ہے ۔ لیکن دوست ہمارے یہاں حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں جب حالات ٹھیک ہوجائیں گے تو ہم بلوچستان کے معاملے پر بولیں گے ، ہم پروفیسر صبا دشتیاری، ماسٹر علی جان ، سر زاہدآسکانی اور ماسٹر بیت اللہ سمیت تمام لوگوں کیلئے بولیں گے بس حالات ٹھیک ہوجانے دیں۔
ماسٹر! معذرت  ہم منافق لوگ ہیں ۔






‘Expel girls or close down’
August 1,2014
Private schools shut down in Panjgur after threats by local religious group
At least 23 private schools and English language centers in Balochistan’s western Panjgur district have been closed since April 25 because of threats and intimidation by a previously unheard-of militant group Tanzeemul Islamul Furqan. Armed men belonging to the group barged into schools and warned the teachers and students against co-education, which they said was not allowed in Islam. They fired warning shots as they told them to either shut down or send their girl students home.
“After threatening teachers and students of various institutions, the masked armed men indiscriminately fired gunshots into the air and vandalized their property,” one of the teachers said. “They beat up a teacher and took away Rs 14,000 from him.”
The religious group has sent threatening letters written in Urdu to schools across Panjgur asking them to expel girl students, and also warned taxi and van drivers against taking girls to school.
Following the threats and intimidation, on 14 May, unidentified men carrying weapons stopped Maj (r) Hussain Ali when he was taking girls to his own private school, the Oasis School, in a van. They beat him up and set the van ablaze. The students fled unhurt.
“In Balochistan’s Makran division, Panjgur is comparatively religious, with almost 100 madrassas and annual teaching activities,” according to Noor Ahmed, another schoolteacher based in Panjgur. “That is why religious fundamentalism is increasing day by day, and teachers are being intimidated for tutoring girls.”
He said teachers like him continued with their jobs despite having received threats by telephone. “But when they started barging into schools and assaulting us for performing our duties, we decided to close down all private institutions.”

Women have traditionally played a pivotal role in the nomadic lifestyle of the Baloch in history, according to veteran Baloch leader Dr Abdul Hayee Baloch, who is a former president of the National Party. “We are concerned about the threats to girls’ education in Makran, and particularly in Panjgur,” he said. “This situation is being created deliberately in order to malign the Baloch political movement internationally and to keep our daughters away from their fundamental right of education.”

He also criticized confiscation of books in raids by police and the paramilitary Frontier Corps (FC) in Turbat and Gwadar this year.
In January, FC men raided a book fair at the Atta Shad Degree College in Turbat, and seized what they said was separatist literature. In April, there were reports of a similar raid by the police in Gwadar, in which two shopkeepers were arrested.
“There have been raids against books that are about our culture, history and literature,” Dr Baloch said. “Baloch political parties should resist.”
Panjgur was hit by a Baloch nationalist insurgency after the killing of Balochistan’s former chief minister Nawab Akbar Khan Bugti in 2006, “and the state actors assume that our private institutions are nurseries for separatists”, said school teacher Anwar Baloch. “But that is not true. We are merely imparting education.”
Dr Ababagar, a young Baloch educationist based in Quetta, criticized the provincial government for not playing its due role and re-open private schools in Panjgur. He said officials of the provincial government did not even pay a visit to Panjgur after the incident.
Meanwhile, hundreds of people meanwhile took to the streets against the threats to private schools in Panjgur, said local reporter Barket Jeeven. They included girls holding banners saying education was their fundamental right.
“The district administration only convened a meeting of local clerics and Panjgur Private Schools Association,” said Ababagar, “but it ended without any effective outcome.”
Anwar Baloch said teachers from Panjgur had met Chief Minister Dr Abdul Malik Baloch in Quetta and asked him for help. He promised them security, but the teachers want a more fundamental resolution of the issue, he said.
Locals say girls in Panjgur feel threatened, especially after the two incidents of men spraying acid on six girls’ faces in the Quetta and Mastung districts of Balochistan when they were shopping for Eid last month.
Names of the teachers have been changed to protect their identity
By: Muhammad Akbar Notezai

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام عیدالفطر کے موقع پر احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں ایک بار پھر حکومت سے لاپتا افراد کی بازیابی کا مطالبہ دہرایا گیا۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ سے شروع ہونے والی اس ریلی میں انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔
ریلی کے شرکا سے خطاب میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نائب صدر ماما قدیر نے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ لاپتا بلوچ نوجوانوں کو بازیاب کرایا جائے اور کسی کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو اُس عدالت میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت ہزاروں بلوچ نوجوان لاپتا ہیں جن کے بارے میں لواحقین کو کچھ بتایا بھی نہیں جا رہا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ماما قدیر کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم لاپتا افراد کے لواحقین کےساتھ مل کر گزشتہ نو عیدیں اسی طرح احتجاج کرتے ہوئے گزار چکی ہے لیکن ان کے بقول اب تک اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔
"جب تک کہ ہمارا ایک بھی لاپتا فرد بازیاب نہیں ہوتا  اس وقت تک ہمارے احتجاج جاری رہیں گے۔ آج مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے خوشی کا دن ہے۔ ہر گھر میں خوشی منا رہے ہیں لیکن بلوچستان میں ہر بلوچ کے گھر ماتم ہے۔ ہر گھر سے دو آدمی اٹھائے گئے ہیں یا شہید کیے گئے ہیں تو ان حالات میں کون خوشی منائے گا۔"
ماما قدیر کا نام خاص طور پر اس وقت بین الاقوامی سطح پر منظر عام پر آیا جب انھوں نے رواں سال اوائل میں لاپتا افراد کے لواحقین کے ہمراہ کوئٹہ سے اسلام آباد تک کا دو ہزار کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ پیدل طے کیا۔
گزشتہ کئی برسوں سے بلوچستان میں لاپتا افراد اور جبری گمشدگیوں کے واقعات اور ان کے خلاف احتجاج چلتا آ رہا ہے۔ انسانی حقوق کی بعض غیر جانبدار تنظیموں کے مطابق احتجاج کرنے والوں کے دعوؤں کے برعکس لاپتا افراد کی تعداد ہزاروں نہیں سینکڑوں میں ہو سکتی ہے جب کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے پاس صرف 47 لاپتا افراد کی شکایت درج کروائی گئی ہے۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں بھی لاپتا افراد سے متعلق مقدمات زیر سماعت ہیں۔
لاپتا افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں کو الزام عام طور پر سکیورٹی ایجنسیوں پر عائد کرتے ہیں جسے حکومت اور سکیورٹی فورسز مسترد کرتی آئی ہیں۔



لندن( این این آئی) بلوچ رہنماء میر جاوید مینگل نے مذہبی انتہاء پسندوں کی جانب سے کوئٹہ و مستونگ میں خواتین پر تیزاب پھینکنے اور پنجگور میں بچیوں کی تعلیم پر قدغن لگانے، تعلیمی اداروں کے بندش کی بھر پور الفاظ سے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذہبی انتہاء پسندوں نے خواتین کی چہروں کو نہیں بلکہ بلوچ روایات، اقدار، اور انسانیت کی چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہیں۔ قبضہ گیر ریاست اور اْس کے گماشتے بلوچ قومی تحریک میں بلوچ خواتین کی کردار اور سرگرم عمل ہونے سے خوفزدہ ہوچکے ہیں۔ اب اوچھے ہتکھں ڈوں کی زریعے خواتین کو ٹارگٹ کی جارہا ہے۔ بلوچ خواتین نے جس بہادری کا مظاہرہ کرکے باباء4 بلوچ نواب خیر بخش مری کے جسد خاکی کو فوج اور اْن کے کاسہ لیسوں کے قبضے سے اپنی تحویل میں لیکر قومی اعزاز کے ساتھ سپردخاک کیا۔ اس کے علاوہ لاپتہ بلوچ فرزندوں کی بازیابی کے تحریک اور لانگ مارچ میں بلوچ بیٹیوں کے کردار تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ آئی ایس آئی اور اْس کے کارندے اب اس طرح کی حرکتیں کرکے انہیں قومی جہد سے دور کوشش کررہے ہیں لیکن وہ اس طرح کے غلیظ حرکتوں سے بلوچ خواتین کو خوفزدہ نہیں کرسکتے۔ میر جاوید مینگل نے مزید کہا یہ خواتین پر تیزاب پھینکنے کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل خضدار، خاران، قلات سمیت دیگر علاقوں میں اس طرح کی دلخراش واقعات پیش آئیں ہیں اور کوئٹہ میں انہی مذہبی قوتوں نے طالبات کی بس کو اپنی حیوانیت کا نشانہ بناچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قابض پاکستانی فوج بلوچ سیاسی و قبائلی روایات کو روند کر ایک گہری سازش کے زریعے بلوچستان میں مذہبی انتہاء پسندی کو پروان چڑھا رہی ہے لیکن بلوچ ایک لبرل اور سیکولر قوم ہے۔ بلوچستان اور بلوچ معاشرے میں مذہبی جنونیت اور درندگی کی کوئی گنجائش نہیں۔ میر جاوید مینگل نے کہا کہ آئی ایس آئی اور فوج نے طالبان کے زریعے پشتون کلچرل کو ملیامیٹ کرنے اور تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کے بعد اب بلوچستان کا رْخ کرچکے ہیں۔ پنجگور میں گزشتہ کئی ماہ سے گرلز تعلیمی ادارے بند ہیں۔ خواتین کی تعلیم حاصل کرنے پر جبری پابندی، اسکولوں کی بندش اور خواتین پر تیزاب پھیکنے میں قابض ریاست کے تشکیل کردہ مذہبی دہشت گرد تنظیمیں اور ڈیتھ اسکواڈز ملوث ہیں جو بلوچ قوم کے آزادی کی تحریک کو کاونٹر کرنے اور عالمی سطع پر بدنام کرنے کے لئے اس طرح کے انتہاء4 پسند قوتوں و تنظیموں کی افزائش اور حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔میر جاوید مینگل نے مزید کہا کہ بلوچ قوم اور آزادی پسند قوتیں مذہبی جنونی ملاوں کا راستہ روکنے اور ایسے واقعات کی تدارک کے لئے متحد ہوجائیں اور اْنہیں منہ توڑ جواب دیں۔ اْنہوں نے عالمی اداروں اور مہذب ممالک سے اپیل کی ہیکہ وہ پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں طالبائزیشن کو پروان چڑھانے سے روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں ایسا نہ ہو کہ پاکستان اور اْس کے خفیہ ادروں کی اسپونسرڈ مذہبی انتہاء پسند پورے خطے کو اپنی لیپٹ میں لے آئے۔








رکھنے کی ناکام

قابض پاکستان ہمارے خواتین پر تیزاب پھینک کر ہمیں یہی احساس دلا رہا ہے کہ ہم غلام ہیں ۔ حیر بیار مری
لندن (بی یوسی نیوز) بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے اپنے بیان میں پاکستان کے فوج اور آئی ایس 
آئی کے پیر رول پر چلنے والے مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے بلوچ خواتین پر تیزاب پھینکنے کو غیر انسانی اور غیر اخلاقی فعل قرار دے کر اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت بلوچستا ن میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے تاکہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کاوٗنٹر کر سکے جیسے جیسے بلوچ قومی آزادی کی تحریک زور پکڑتا جارہا ہے بلوچستان میں پاکستانی ایجنسیوں اور آرمی کے پالے ہوئے مذہبی انتہاپسندوں کی کاروائیوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں خصوصی طور پر بلوچ خواتین کو ٹارگٹ بنایا جار ہا ہے کیونکہ اس وقت بلوچ خواتین بلوچ قومی آزادی کے لیے اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ ہی جدوجہد کر رہے ہیں حال ہی میں مستونگ اور کوئٹہ میں بلوچ خواتین پر تیزاب پھینکے کا واقعہ پاکستانی ایجنسیوں اور فوج کے بزدلانہ حرکتوں کو واضع کرتا ہے۔انہوں نے کہا بلوچ معاشرے میں خواتین کو ایک معزز مقام حاصل ہے لیکن آج قابض پاکستان ہمارے خواتین پر تیزاب پھینک کر ہمیں یہی احساس دلا رہا ہے کہ ہم غلام ہیں اور ہمارے قسمت کا فیصلہ صرف قابض کر سکتا ہے ہماری شناخت مٹانے کے ساتھ ساتھ ہمارے ننگ و ناموس کے چہرے بگاڑنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسخ شدہ لاشیں ملنے کے ساتھ بلوچ عورتوں پر تیزاب پھینکنے کا سلسلہ پاکستانی فوج ایجنسیوں کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہیں پاکستانی فوج بلوچ قوم کی خاص کر بلوچ نوجوانوں اور بہنوں کی جدوجہد کی وجہ سے حواس باختہ ہے جس کا مثال کچھ مہینے پہلے پنجگور میں بلوچ خواتین کو تعلیم کے زیور سے دور کرنے کے لیے پاکستان نے اپنے مذہبی اور ڈیتھ سکواڈز کے زریعے لڑکیوں کی تعلیمی بندش کا سلسلہ شروع کیا تین مہینے سے پنجگور میں لڑکیوں کے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔حیربیار مری نے کہا پاکستانی ایجنسیاں اور فوج پنجاب کو آگے لے جانے کے لیے بلوچستان ور پشتونخوا میں اپنے مذہبی انتہاپسندوں کے زریعے تعلیم کو تباہ کر رہا ہے۔ اور خواتین جو کہ کسی معاشرے کی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں انہیں گھروں تک محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی طرح دنیا کو انہی مذہبی انتہاپسندوں کے نام پر بے وقوف بنا کر اورپیسے بٹورکر پنجاب کی ترقی خوشخالی اور تعلیم کے لیے استعمال کر رہا ہے پنجاب کی یونیورسٹیوں میں لڑکے اور لڑکیا ں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کے لیے سب ٹھیک ہے لیکن بلوچ اور پشتون کے خواتینسودا سلف کے لیے باہر نکلتے ہیں ان پر تیزاب پھینکا جاتا ہے سکولوں کو بموں سے اڑایا جاتا ہے تاکہ وہمقبوضہ بلوچستان اور پشتونخوا کو اپنے مذہبی انتہاپسندوں کے زریعے تعلیم سے دور رکھ کر ہمیشہ کے لیے غلام بناسکیں اوران کے نام پر اپنے آپ کو ترقی دے سکیں۔حیربیار نے کہا کہ بلوچ معاشرہ جو ہزاروں سال سے اعتدال پسند رہا ہے اسے قابض پاکستانی ریاست اسے انتہا پسندی کی طرف لے جار ہا ہے جو کل یہ دوسرا وزیرستان بھی بن سکتا ہے وزیرستان وغیرہ میں بھی پاکستان نے پہلے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگایا اور خواتین کے چہروں پر تیزاب پھینکے اگر اس وقت انہیں کنڑرول کیا جاتا تو آج دنیا کے لیے وہ درد سر نہیں بنتے بلوچستان میں ابھی یہ نیا نیا شروع ہوا ہے اس لیے بین الاقوامی دنیا کو پاکستان اوار اس کے ڈیتھ سکواڈ مذہبی جنونی لوگوں کے عمل اور حرکت کا نوٹس لینے چاہیے تاکہ پاکستان کی مذہبی جنونیت کو پھیلنے سے وقت پر روکا جا سکے دنیا کو اس گمبیرمسلئے کی ایمیت کوسمجنا چایہے






Google+