عادل بلوچ
جب کوئی انسان منافق ہوجائے تو اُس کیلئے دن کو رات کہنا بڑی بات نہیں کیونکہ منافق کیلئے اگر کوئی شے اہمیت رکھتی ہے تو وہ صرف اپنے ذات کی نشو و نما ہے ۔خوف، لالچ اور خوشامدی منافقت کی عکاسی کرتے ہیں ،جیسا کہ نفسیات دان مریض کی روز مرہ کی معمولات سے ہی مرض کی نشاندی کرتے ہیں اسی طرح خوف ، لالچ اور خوشامدی سے منافقت کی بہترین عکاسی ہوتی ہے ۔ منافق انسان کینسر کی طرح پھیل کر معاشرے کو منافقت کی بھینٹ چڑھاتی ہے ۔ جس معاشرے میں آج ہم رہ رہے ہیں اس کو منافقت مکمل گھیر چکی ہے ۔ میں نے ہمیشہ اپنے نزدیک لوگوں کو ’’مُلاؤں ، مذہبی انتاپسندوں ، تنگ نظروں کو منافق کہتے سُنا ہے(وہ خود بھی اُس جُرم میں شریک ہیں) لیکن یہ لبرل ، سیکولر ، سوشلسٹ ، نیشنلسٹ منافقوں کا کیا ہوگا؟ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے مُلاؤں کے پاس توگڈ طالبان اور بیڈ طالبان کا تصور موجود ہے ، کیا اب یہ نام نہاد سوشلسٹ ، نیشنلسٹ اور لبرلوں کے پاس بھی گڈ مظلوم ، بیڈ مظلوم یا گڈ ظالم یا بیڈ ظالم کے تصور نے جنم لیا ہے ؟طیارہ حادثے میں سب کے DPسیاہ ہوجاتے ہیں ، فرانس حملے میں سب کے اندر کا نام نہاد سوشلزم ، لبرل ازم اور نیشنلزم باہر نکل کر کراچی، کوئٹہ اسلام آباد پریس کلبوں میں موم بتیاں جلانے پہنچ جاتے ہیں ۔ لیکن ماسٹر بیت اللہ جیسے درویش انسان کیلئے کیوں کوئی لبرل باہر نکلے؟ کیا ماسٹر بیت اللہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ تھا؟ ماسٹر بیت اللہ جیسا معصوم انسان اس معاشرے میں خودداری دکھا رہا تھا جس کے سیدے معنی موت ہے ، ابھی بھلا یہاں کوئی خوددار ہوسکتا ہے ؟ بھائی ماسٹر بیت اللہ کو کیا ضرورت تھی دازن سے تمپ پیدل جاکر اسکول میں بچوں کو پڑھانے کیلئے ؟ ماسٹر بیت اللہ کو کس نے کہا تھا کہ وہ اُن کسانوں اور مزدوروں کے بچوں کے ساتھ مخلص ہوجائے ان کو پڑھائے ؟ جس طرح ہزاروں گھوسٹ اساتذہ کراچی و کوئٹہ میں آسائش و آرام کو زندگی گزار رہے ہیں تو اس طرح ماسٹر بھی گزار سکتا تھا ۔لیکن کیا کرے ماسٹر بیچارہ سادہ لوح بلوچ تھا ۔
میرے لبرل ، سیکولر ، سوشلسٹ ، نیشنلسٹ منافق دوستوں ! آج صبح سوشل میڈیا میں نیوز آنکھوں کے سامنے گزری جس میں بتارہا تھا بلوچستان کے علاقے مند میں پانچ دہشتگرد مقابلے میں مارے گئے ۔ بلوچستان میں تین تین سال قبل اغوہ ہونے والوں کا مقابلے میں قتل ہونا کوئی دل دہلادینے والا واقعہ نہیں ہوتے ۔ دوسرے منافقوں کی طرح میں نے بھی خبر پڑھنے کے بعد فیس بک کو لاگ آوٹ کرکے اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہوگیا ۔ کیونکہ اس میں کوئی بڑی بات تھوڑی ہے بلوچستان میں اب تو اس طرح ماسٹر جیسے درویش انسانوں کا قتل عام معمول کی بات ہے اب میرا جیسا منافق کس کس کیلئے موم بتیاں جلائے؟ دیکھو بھائی ایک تو یہ بلوچستان کا معاملہ ہے ، دوسرا ملکی سلامتی کے اداروں نے کہا ہے کہ یہ دہشتگرد تھے اس معاملے ہمارے جیسے لوگوں کا خاموش رہنے میں ہی عافیت ہے۔ دیکھے بھائی اگر ماسٹر بیت اللہ توہین رسالت کے الزام میں مارے جاتے تو ہم سوشل میڈیا کو سر میں اُٹھاتے ، ٹیوٹر میں ٹرینڈ کرواتے ، پریس کلبوں کے سامنے موم بتیاں جلاتے ، فیس بک ڈی پی تبدیل کرتے اس طرح کرنے میں سانپ بھی مرجاتی ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی ہے ۔بھائی ماسٹر بیت اللہ کی بد نصیبی تو دیکھ مارا بھی بلوچستان جیسے جنگل میں گیا ، اگر یہ سکینڈری اسکول کا ٹیچر پنجاب ، سندھ اور پختونخوامیں مارا جاتا تو ہم اپنے سوشلسٹوں کے دس بارہ آن لائن نیوز میں اس تشہیر کرواتے ، اپنے لبرل دوستوں سے آرٹیکل لکھواتے ، مین اسٹریم میڈیا میں بیٹھے اپنے سیکولر دوستو ں سے اس واقعہ کو بریکنگ نیوز کرواتے لیکن بھائی یہ بلوچستان کا معاملہ ہے ۔ دیکھوں بھائی ہمارے آئن لائن نیوز کے اس طرح کا رسک کیسے لے سکتے ہیں ؟ اگر بادل نخواستہ آئن لائن نیوز بند ہوگئی تو ان کے بال بچوں کا کیا ہوگا؟ دیکھے بھائی ہمارے آرٹیکل لکھنے والے دوستوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ، اس لیئے بلوچستان کے معاملے میں ہم اجتناب برتتے ہیں ۔ ہماری بھی کچھ مجبوریاں ہیں ، آپ ہماری مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ مجھ سمیت میرے تمام لبرل ، سوشلسٹ ، نیشلسٹ دوستوں کو بخوبی علم ہے کہ 17جون 2015 ء کو تمپ سکینڈری اسکول سے صبح سویرے ماسٹر بیت اللہ غائب ہوئے ۔ بھائی یقین جانیے اگر ماسٹر سلیبرٹی ہوتا تو ہم اس واقع پر کچھ کرتے کیونکہ سلیبرٹیزکا معاملہ خود سوشل میڈیا میں اوچھل جاتا تو وہاں ہمیں کوئی مشکلات پیش نہیں آتی ہوگی ۔کامریڈ لینن کے اس قول پر ہمارا ایمان ہے کہ ظلم کے خاتمے کیلئے خونی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے ، تشدد کا جواب تشدد سے دیا جاتا ہے ، چے گیورا سے ہم مکمل اتفاق کرتے ہیں ہے کہ ظلم کے خلاف ہر بولنے والے ہمارے کاروان کے مسافر ہے ۔ لیکن دوست ہمارے یہاں حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں جب حالات ٹھیک ہوجائیں گے تو ہم بلوچستان کے معاملے پر بولیں گے ، ہم پروفیسر صبا دشتیاری، ماسٹر علی جان ، سر زاہدآسکانی اور ماسٹر بیت اللہ سمیت تمام لوگوں کیلئے بولیں گے بس حالات ٹھیک ہوجانے دیں۔
ماسٹر! معذرت ہم منافق لوگ ہیں ۔
جب کوئی انسان منافق ہوجائے تو اُس کیلئے دن کو رات کہنا بڑی بات نہیں کیونکہ منافق کیلئے اگر کوئی شے اہمیت رکھتی ہے تو وہ صرف اپنے ذات کی نشو و نما ہے ۔خوف، لالچ اور خوشامدی منافقت کی عکاسی کرتے ہیں ،جیسا کہ نفسیات دان مریض کی روز مرہ کی معمولات سے ہی مرض کی نشاندی کرتے ہیں اسی طرح خوف ، لالچ اور خوشامدی سے منافقت کی بہترین عکاسی ہوتی ہے ۔ منافق انسان کینسر کی طرح پھیل کر معاشرے کو منافقت کی بھینٹ چڑھاتی ہے ۔ جس معاشرے میں آج ہم رہ رہے ہیں اس کو منافقت مکمل گھیر چکی ہے ۔ میں نے ہمیشہ اپنے نزدیک لوگوں کو ’’مُلاؤں ، مذہبی انتاپسندوں ، تنگ نظروں کو منافق کہتے سُنا ہے(وہ خود بھی اُس جُرم میں شریک ہیں) لیکن یہ لبرل ، سیکولر ، سوشلسٹ ، نیشنلسٹ منافقوں کا کیا ہوگا؟ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے مُلاؤں کے پاس توگڈ طالبان اور بیڈ طالبان کا تصور موجود ہے ، کیا اب یہ نام نہاد سوشلسٹ ، نیشنلسٹ اور لبرلوں کے پاس بھی گڈ مظلوم ، بیڈ مظلوم یا گڈ ظالم یا بیڈ ظالم کے تصور نے جنم لیا ہے ؟طیارہ حادثے میں سب کے DPسیاہ ہوجاتے ہیں ، فرانس حملے میں سب کے اندر کا نام نہاد سوشلزم ، لبرل ازم اور نیشنلزم باہر نکل کر کراچی، کوئٹہ اسلام آباد پریس کلبوں میں موم بتیاں جلانے پہنچ جاتے ہیں ۔ لیکن ماسٹر بیت اللہ جیسے درویش انسان کیلئے کیوں کوئی لبرل باہر نکلے؟ کیا ماسٹر بیت اللہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ تھا؟ ماسٹر بیت اللہ جیسا معصوم انسان اس معاشرے میں خودداری دکھا رہا تھا جس کے سیدے معنی موت ہے ، ابھی بھلا یہاں کوئی خوددار ہوسکتا ہے ؟ بھائی ماسٹر بیت اللہ کو کیا ضرورت تھی دازن سے تمپ پیدل جاکر اسکول میں بچوں کو پڑھانے کیلئے ؟ ماسٹر بیت اللہ کو کس نے کہا تھا کہ وہ اُن کسانوں اور مزدوروں کے بچوں کے ساتھ مخلص ہوجائے ان کو پڑھائے ؟ جس طرح ہزاروں گھوسٹ اساتذہ کراچی و کوئٹہ میں آسائش و آرام کو زندگی گزار رہے ہیں تو اس طرح ماسٹر بھی گزار سکتا تھا ۔لیکن کیا کرے ماسٹر بیچارہ سادہ لوح بلوچ تھا ۔
میرے لبرل ، سیکولر ، سوشلسٹ ، نیشنلسٹ منافق دوستوں ! آج صبح سوشل میڈیا میں نیوز آنکھوں کے سامنے گزری جس میں بتارہا تھا بلوچستان کے علاقے مند میں پانچ دہشتگرد مقابلے میں مارے گئے ۔ بلوچستان میں تین تین سال قبل اغوہ ہونے والوں کا مقابلے میں قتل ہونا کوئی دل دہلادینے والا واقعہ نہیں ہوتے ۔ دوسرے منافقوں کی طرح میں نے بھی خبر پڑھنے کے بعد فیس بک کو لاگ آوٹ کرکے اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہوگیا ۔ کیونکہ اس میں کوئی بڑی بات تھوڑی ہے بلوچستان میں اب تو اس طرح ماسٹر جیسے درویش انسانوں کا قتل عام معمول کی بات ہے اب میرا جیسا منافق کس کس کیلئے موم بتیاں جلائے؟ دیکھو بھائی ایک تو یہ بلوچستان کا معاملہ ہے ، دوسرا ملکی سلامتی کے اداروں نے کہا ہے کہ یہ دہشتگرد تھے اس معاملے ہمارے جیسے لوگوں کا خاموش رہنے میں ہی عافیت ہے۔ دیکھے بھائی اگر ماسٹر بیت اللہ توہین رسالت کے الزام میں مارے جاتے تو ہم سوشل میڈیا کو سر میں اُٹھاتے ، ٹیوٹر میں ٹرینڈ کرواتے ، پریس کلبوں کے سامنے موم بتیاں جلاتے ، فیس بک ڈی پی تبدیل کرتے اس طرح کرنے میں سانپ بھی مرجاتی ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی ہے ۔بھائی ماسٹر بیت اللہ کی بد نصیبی تو دیکھ مارا بھی بلوچستان جیسے جنگل میں گیا ، اگر یہ سکینڈری اسکول کا ٹیچر پنجاب ، سندھ اور پختونخوامیں مارا جاتا تو ہم اپنے سوشلسٹوں کے دس بارہ آن لائن نیوز میں اس تشہیر کرواتے ، اپنے لبرل دوستوں سے آرٹیکل لکھواتے ، مین اسٹریم میڈیا میں بیٹھے اپنے سیکولر دوستو ں سے اس واقعہ کو بریکنگ نیوز کرواتے لیکن بھائی یہ بلوچستان کا معاملہ ہے ۔ دیکھوں بھائی ہمارے آئن لائن نیوز کے اس طرح کا رسک کیسے لے سکتے ہیں ؟ اگر بادل نخواستہ آئن لائن نیوز بند ہوگئی تو ان کے بال بچوں کا کیا ہوگا؟ دیکھے بھائی ہمارے آرٹیکل لکھنے والے دوستوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ، اس لیئے بلوچستان کے معاملے میں ہم اجتناب برتتے ہیں ۔ ہماری بھی کچھ مجبوریاں ہیں ، آپ ہماری مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ مجھ سمیت میرے تمام لبرل ، سوشلسٹ ، نیشلسٹ دوستوں کو بخوبی علم ہے کہ 17جون 2015 ء کو تمپ سکینڈری اسکول سے صبح سویرے ماسٹر بیت اللہ غائب ہوئے ۔ بھائی یقین جانیے اگر ماسٹر سلیبرٹی ہوتا تو ہم اس واقع پر کچھ کرتے کیونکہ سلیبرٹیزکا معاملہ خود سوشل میڈیا میں اوچھل جاتا تو وہاں ہمیں کوئی مشکلات پیش نہیں آتی ہوگی ۔کامریڈ لینن کے اس قول پر ہمارا ایمان ہے کہ ظلم کے خاتمے کیلئے خونی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے ، تشدد کا جواب تشدد سے دیا جاتا ہے ، چے گیورا سے ہم مکمل اتفاق کرتے ہیں ہے کہ ظلم کے خلاف ہر بولنے والے ہمارے کاروان کے مسافر ہے ۔ لیکن دوست ہمارے یہاں حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں جب حالات ٹھیک ہوجائیں گے تو ہم بلوچستان کے معاملے پر بولیں گے ، ہم پروفیسر صبا دشتیاری، ماسٹر علی جان ، سر زاہدآسکانی اور ماسٹر بیت اللہ سمیت تمام لوگوں کیلئے بولیں گے بس حالات ٹھیک ہوجانے دیں۔
ماسٹر! معذرت ہم منافق لوگ ہیں ۔
0 comments:
Post a Comment