چلتن کے دامن

 میں ......
زامران بلوچ

ایک ایسے جدوجهد کا رهبر جس راہ میں کامیابی کی صورت میں عظیم لوگ ماو ، هوچی اور منڈیلا بن جاتے هیں اور ناکامی کی صورت میں خیر بخش مری .....
مگر بقول بابا مری کے هم جنگ هارے نهیں بلکہ جاری هے.

بلوچوں کے عظیم قومی لیڈر بزرگ شخصیت رهبر آزادی خیر بخش مری کهتے هیں کہ آج بلوچ قوم میں جو بیداری دیکه رهے هوں یہی میرا حاصل حصول تها .

تو بے شک بابا اپنے مقصد میں کامیاب هوکر راہ حق کا مسافر بن گیا اور کوہ چلتن کے دامن میں آسودہ خاک هوگیا....

جب عظیم بابا کی موت کا خبر گردش کررها تها اور اگلے روز بلوچ فرزندوں نے لاش کندهے میں اٹهایا هوا تها اور ابهی تک بابا سپرد گلزمین نہیں کیا گیا تها کہ بلوچ سیاست کے تنگ نظر لوگ بابا کی لاش پر سیاست کررهے تهے.

یقینا ان پر لعنت کے سوا اور کچه نہیں کرسکتے.

مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیان هے کہ بابا کی فکر کا اصل وارث وہ هیں جو اسکی لاش کو دشمن سے چهڑا کر شهدا کی پہلو میں سپرد ء گلزمیں کرنے میں کامیاب هوئے.

ماما قدیر میں تیری همت کو سلام پیش کرتا هوں.
عین اسی موقع پر سنگت خیر بیار مری ، ڈاکڑ اللہ نزر کے پریس ریلز سوشل میڈیا اور اخبارات کے زینت بن گئے کہ دونوں کے پریس ریلز میں اتحاد اور یکجہتی کا لفظ موجود تها مگر شاید یہ ایک روایاتی بیان کے سوا اور کچه نہیں ....
بلوچ نوجوان زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کریں ،
بلکہ اپنا بابا کو اپنے اندر سے ڈونڈ لائیں .
میں پهر کهتا هوں کہ ماما تجهے سلام
نواب خیربخش مری ایک قبائلی رہنما نہیں بلکہ ایک قومی رہنما تھے، ایک قبیلہ نہیں بلکہ ایک قوم کو سوگوار چھوڑا۔باباکے سیاسی وارث ان کے لاکھوں نظریاتی ساتھی ہیں گوکہ بلوچ قومی تحریک میں بابائے بلوچ کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی لیکن چونکہ جس طرح انہوں نے بلوچ نوجوانوں کی سیاسی، فکری اور نظریاتی تربیت کی وہ ان کے اس مشن کو جاری رکھنے کی بھر پور اہلیت رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برا ئے انسانی حقوق میں بلوچ قومی نمائند مہران بلوچ


 اقوام متحدہ کے ادارہ برا ئے انسانی حقوق میں بلوچ قومی نمائندہ مہران بلوچ نے کہا کہ بابائے بلوچ نواب خیر بخش مری کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس خلا کو پر نہیں کیا جاسکتاوہ نہ صرف ایک بہترین باپ تھے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ ایک اعلیٰ رہبر اور عظیم انسان تھے انہوں نے اپنی ساری عمر انصاف، برابری، پر قائم معاشرے کے قیام اور غلامی سے نفرت میں گذاری اور بلوچ قوم کے بہتر و روشن مستقبل اور بلوچ گلزمین کی آزادی کی جدوجہد میں برسرپیکار رہے جینیوا سے جاری کئے گئے اپنے بیان میں نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے نے کہا کہ میرے والد نواب خیر بخش مری ہمیشہ اپنے بارے میں کم لیکن بلوچ قوم و سرزمین کی آذادی کے لیے زیادہ فکر مند رہتے تھے۔ ان کی ہمیشہ سے یہی خواہش تھی کہ بلوچ قوم اپنی منزل پالے اور قبضہ گیروں سے اپنی دھرتی کو آزاد کرائے مہران بلوچ نے کہا کہ نواب خیربخش مری ایک قبائلی رہنما نہیں بلکہ ایک قومی رہنما تھے، اسی لیے انہوں نے ایک قبیلہ نہیں بلکہ ایک قوم کو سوگوار چھوڑا۔ خیربخش مری کے سیاسی وارث ان کے لاکھوں نظریاتی ساتھی ہیں گوکہ بلوچ قومی تحریک میں بابائے بلوچ کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی لیکن چونکہ جس طرح انہوں نے بلوچ نوجوانوں کی سیاسی، فکری اور نظریاتی تربیت کی وہ ان کے اس مشن کو جاری رکھنے کی بھر پور اہلیت رکھتے ہیں۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ نواب خیر بخش مری کے ادھورے خواب کو ہم ضرور پورا کریں گے اور ان کے اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ ہمیں دشمن کو یہ باور کرانا ہوگا کہ نواب مری کو تو ہم سے چھین لیا لیکن ان کی غلامی سے نفرت اور بلوچ وطن کی آزادی کی دی ہوئی فکری و نظریاتی تعلیمات ہم سے نہیں چھین سکتے۔ ہمیں بابائے بلوچ کی دی ہوئی تعلیمات اور ان کی بتائے ہوئے راستے پر عمل پیرا ہوکر دشمن کو بلوچ سرزمین چھوڑنے پر مجبور کرنا ہوگامہران بلوچ نے کہا کہ میں بلوچ قوم کو یہ بتاتا چلوں کہ نواب مری کا جسد خاکی پاکستانی حکام کی تحویل میں ہے، ان کی آخری رسومات کے لیے جو بھی انتظامات کیے جا رہے ہیں اس سے ہم بلکل لا علم ہیں سرکاری حکام کی طرف سے بلوچ رہنما کی آخری رسومات میں نواب خیر بخش مری کے خانداں کی رضا مندی شامل نہیں ہے

خیر بخش مری بلوچ سیاست کا وہ تہہ دار کردار تھے کہ آخری ساعت تک ان کو کوئی سمجھ نہ پایا۔ وہ اکثر، کسی سے گفتگو میں، کوئی جملہ ادا کرتے، جو ایک سطر ہی ہوتا لیکن اس کے پس منظر میں ایک پیچیدہ سی کہانی گھومتی رہتی تھی۔

وہ ابن الوقت سیاست دانوں پر ہمیشہ زیر لب مسکراتے رہے۔ جیسے ہم اسکرین پر کسی کو اچھلتے کودتے دیکھتے ہیں اور اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ بےچارہ منڈلی میں اپنے حصے کا ناٹک دکھارہا ہے۔

کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی سوفٹ و ہارڈ فائل میں خیابانِ سحر کے نام سے ایک سڑک کی انٹری ہوئی ہے جس کے ایک کوچے میں اس نواب نے بہت سا وقت گزارا۔

وہ بات کرتے ہوئے طویل بیزار کُن جملے نہیں بولتے تھے، جو سیاستدانوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ ان کے جملوں کی ساخت اس قدر چھوٹی ہوتی تھی کہ سننے والا درمیان میں، دو تین جملے بول کر، بات چیت میں اپنا حصہ بھی ڈال سکتا تھا۔

وہ بات چیت میں دور دراز کی کہانیاں سناتے اور اپنے ارد گرد کے حالات کا ناک نقشہ سمجھاتے تھے۔ پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے زیرک صحافی ہمیشہ سوچتے رہے کہ یہ نواب کس خمیر کے بنے تھے کہ سمجھوتوں سے ہمیشہ دور رہے۔

نواب خیر بخش مری جدید بلوچ نیشنلزم کا فکری منبع تھے۔

"۔۔۔ دراز قد، خوش طبع، فہم و فراست کا مالک اور گمراہ کن حد تک حلیم الطبع مری ایک خوش بیان مقرر اور قوم پرست تحریک کا نقیب ہے۔ تاہم اسے روزمرہ کی سیاسی سرگرمیوں اور مشکلات میں اکثر اوقات متذبذب اور بعض اوقات سادہ لوح تک پایا گیا ہے وہ بین الاقوامی دانشورانہ ذوق کا مالک ہے۔ تاہم اس کا طرز زندگی ہر لحاظ سے بلوچ ہے۔"

(امریکی صحافی سلیگ ہیریسن، "ان افغانستانز شیڈو: بلوچ نیشنلزم ص 55)

نواب اکبر بگٹی کے برعکس، نواب خیر بخش نے اسلام آباد پر --چند مستثنیات کے علاوہ-- کبھی اعتماد نہیں کیا جبکہ پاکستانی ہیئت حاکمہ، مقتدرہ نے ہمیشہ ان کو، ان کے قدآور سیاسی دوستوں، نواب اکبر بگٹی و سردار عطاءاللہ مینگل، کے درمیان، سب سے خطرناک خیال کیا۔

گزرے سال کےعام انتخابات سے چند ماہ قبل پاکستانی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف ایک کتاب لکھ ڈالی۔ کتاب کیا تھی، میڈیا کے زور پر زبان زد عام و خاص ہوکر غائب ہوگئی۔ اپنی کتاب "یہ خاموشی کہاں تک؟" میں وہ لکھتے ہیں؛

"جون 2002 میں بلوچستان سے متعلق آئی ایس آئی سے ایک رپورٹ ملی کہ خیر بخش مری کو ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را پیسے دے رہی ہے۔ بگٹی صاحب نے پہلے ہی خاصے مسائل پیدا کررکھے تھے اور گیس کی کھوج شروع نہیں کرنے دیتے تھے۔ اس رپورٹ میں اس سلسلے کی بھی تفصیلات تھیں۔ پھر دو دن بعد بتایا گیا کہ خیر بخش مری نے اپنے قبیلے کے 200 لوگ بگٹی صاحب کی حفاظت کیلئے فراہم کئے ہیں۔ بگٹی صاحب کیساتھ یہ مسائل چلتے رہے۔ ہمیں خبریں ملتی رہتیں کہ بلوچستان سے کچھ اور اہم لوگ بھی افغانستان جاتے اور وہاں سے انہیں امریکہ کی طرف سے پیسے دیئے جاتے۔" -- ص 258

وہ خاموش طبع تھے۔ میڈیا پر زیادہ اعتبار نہیں کرتے تھے۔ ان کو دوسروں کی گفتگو کے سیاق و سباق سے بریدہ مطالب نکالنے کا الزام دیتے رہے۔ وہ حُسن و دلکشی کا ایک تراشیدہ نمونہ تھے۔ ستواں ناک کے نیچے دہان بالکل بچوں جیسا، جہاں سے نپے تلے سیاسی الفاظ نکلتے تھے۔

گفتگو میں کہیں کہیں اپنے سننے والے کو بھی شریک کرتے۔ فکرمندی سے سوچتے ہوئے، وہ آپ پر کوئی گہرے معنی واضح کرنے کیلئے، کوئی لفظ پوچھتے۔

وہ ہمیشہ اپنے الفاظ پورے یقین کیساتھ ادا کرتے رہے، جیسے تاریخ کے بڑے کردار وقت آنے پر اپنے فلسفے کی جیت پر یقین رکھتے تھے۔ انہیں سنتے ہوئے، سننے والے کو گمان گزرتا تھا، آپ ایک ایسے شخص کے سامنے بیٹھے ہیں جو جنگ کے میدان سے کچھ دیر کیلئے آپ کو کچھ کہنے آیا ہو۔ ان کی گفتگو میں لفظ "دشمن" کی گونج بار بار سنائی دیتی تھی۔

محدود قوت کیساتھ، بڑی طاقت سے کیسے لڑا جاتا ہے؟

اکثر خیال کیا جاتا ہے نواب خیر بخش مری نے مرغوں کی لڑائی سے یہ ہنر سیکھا اور اسے سیاست کے میدان میں آزمایا۔ یہ نیم سچ ہوسکتا ہے، سراسر درست نہیں۔ وہ مجھے چیونٹی کی جنگ و مرگ کے فلسفے پر یقین رکھنے والے صابر سیاستدان لگے۔ زندہ و مردہ جسم کیخلاف گروہ کی صورت میں یورش کرنا۔ کسی ایک مرکزیت کے تحت سالہا سال معمولی کامیابیاں حاصل کرنا تاآنکہ وہ زندہ یا مردہ جسم نیست و نابود ہوجائے۔ چیونٹیوں کو ہم روز یہ عمل کرتا دیکھتے ہیں۔

70ء کی دہائی میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ قبائل کو سیاسی تنظیم کے مضبوط نظم و ضبط کے ڈھانچے کے مقابلے میں زیادہ موثر و حاوی تصور کرتے رہے۔ ممکن ہے اس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہوں۔ وہ اپنے قبیلے --مری-- کی بلوچ نیشنلزم کے مسلح ڈھانچے کے ہراول دستے کے طور پر تربیت کرتے رہے۔

"کہنے کو مری سب سے بڑا بلوچ قبیلہ ہیں لیکن سب سے زیادہ پراسرار بھی اسی قبیلے کو بناکر پیش کیا گیا ہے۔ جتنا بڑا قبیلہ ہے اتنی ہی کم تحقیق ہوئی ہے۔ اس تحقیقی کمیابی کے نتیجے میں طرح طرح کے قصے کہانیاں مشہور ہیں۔ کوئی انہیں لٹیرا سمجھتا ہے، کوئی نپٹ جاہل، کوئی انہیں پہاڑوں کے اندر الگ تھلگ رہنے والی مخلوق گردانتا ہے تو کوئی پتھر کے دور کی تہذیب کا نمائندہ کہتا ہے۔"

"بات یہ ہے کہ جب کوئی قبیلہ کسی بھی طرح کی سماجی و سیاسی سودے بازی کیلئے آمادہ نہ ہو، اجنبیوں سے گھلنے ملنے میں زیادہ دلچسپی نہ رکھتا ہو، طبعاً اتنا آزاد منش ہو کہ دوسروں کے تصور ترقی کو بھی ہضم نہ کرسکے، کسی اجتماعی سیاسی بہاؤ کا حصہ بننے پر تیار نہ ہو، جب وہ ہر اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اور ہر اسٹیبلشمنٹ اس کے بارے میں مشکوک ہو تو پھر وہی ہوتا ہے جو تاریخ مسلسل مری قبیلے کیساتھ کرتی آرہی ہے۔ -- سیلاب ڈائری، وسعت اللہ خان، ص 211

"تاریخ نے مریوں کو غالباً اس لیے راندہ درگاہ کرنے کی کوشش کی کہ مورخ زیادہ تر سرکاری درباری لوگ گزرے ہیں۔ مریوں پر جب بھی کسی نے خود کو جبراً تھوپنے کی کوشش کی، انہوں نے مزاحمت کی اور مزاحمت کرنے والوں کو کوئی بھی حکمراں یا درباری مورخ پسند نہیں کرتا۔" -- سیلاب ڈائری، وسعت اللہ خان،














Google+